اسلام آباد —
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جبری گمشدگیوں کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کےخصوصی وفد کو ملنے سے انکار کردیا ہے۔
عدالت عظمٰی کی طرف سے منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کی طرف سے موصول ہونے والے ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ماہرین نے اسلام آباد میں قیام کے دوران چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور وزارت بھی اس کی حامی ہے۔
’’ایک خط کے ذریعے ہی وزارت خارجہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمات (سپریم) کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور مروجہ اصولوں کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی معاملات پر گفت و شنید نہ کریں۔‘‘
بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے وفد کو ملنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی معذرت کے بارے میں وزارت خارجہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی پاکستان آمد پر حزب اقتدار اور حزب مخالف کے اراکین پارلیمان کی جانب سے بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
عالمی تنظیم کا وفد دس روزہ دورے پر اتوار کو اسلام آباد پہنچا تھا اور پاکستان میں قیام کے دوران اس کے ممبران سرکاری عہدیداروں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، سیاستدانوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کر کے اُن کےبیانات قلمبند کریں گے۔
قومی اسمبلی کے پیر کی شب ہونے والے اجلاس میں بعض حکومتی ارکان نے وفد کے دورے کو قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد پر ایوان میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔
نکتہ اعتراض پر تقریر کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس رضا حیات ہراج نے ورکنگ گروپ کے ارکان کے دورے کو ’’ملک توڑنے کی سازش‘‘ قرار دیا۔
’’اس وفد کو کس نے ویزے دیے، اس کا مینڈیٹ کیا ہے، یہ کن لوگوں سے ملے گا اور کہاں کہاں جائے گا کسی کو کچھ پتا نہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری کا سوال اور بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
’’یہ وفد بلوچستان اور سندھ کا دورہ کرے گا وہاں ایک شخص بھی کہہ دے گا کہ پاکستان نہیں رہنا چاہیےتو پھر مسئلہ ہوگا۔‘‘
ایوان میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی عدم موجودگی پر وفاقی وزیر منظور وٹو نے جواب دیتے ہوئے اس معاملے پر تحریک التوا پیش کر کے ایوان میں بحث کرانے کے مطالبے کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ماہرین کی آمد سے قبل وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واضع کیا تھا کہ یہ وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر آ رہا ہے مگر یہ نا تو حقائق کی تفتیش کرنے والا اور نہ ہی ایک تحقیقاتی مشن ہے۔
’’ورکنگ گروپ کا اصل منشور ان لاپتہ افراد تک رسائی حاصل کرنے میں متاثرہ خاندانوں اور متعلقہ حکومتوں کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا ہے جن کے مقدمات ورکنگ گروپ کے حوالے کیے گئے ہوں۔‘‘
پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے بلوچستان میں بدامنی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران متنبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کے وفد کی آمد سے قبل متعلقہ حکام کو اپنے معاملات درست کر لینے چاہیئں۔
عدالت عظمٰی کی طرف سے منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کی طرف سے موصول ہونے والے ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ماہرین نے اسلام آباد میں قیام کے دوران چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور وزارت بھی اس کی حامی ہے۔
’’ایک خط کے ذریعے ہی وزارت خارجہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمات (سپریم) کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور مروجہ اصولوں کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی معاملات پر گفت و شنید نہ کریں۔‘‘
بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے وفد کو ملنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی معذرت کے بارے میں وزارت خارجہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی پاکستان آمد پر حزب اقتدار اور حزب مخالف کے اراکین پارلیمان کی جانب سے بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
عالمی تنظیم کا وفد دس روزہ دورے پر اتوار کو اسلام آباد پہنچا تھا اور پاکستان میں قیام کے دوران اس کے ممبران سرکاری عہدیداروں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، سیاستدانوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کر کے اُن کےبیانات قلمبند کریں گے۔
قومی اسمبلی کے پیر کی شب ہونے والے اجلاس میں بعض حکومتی ارکان نے وفد کے دورے کو قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد پر ایوان میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔
نکتہ اعتراض پر تقریر کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس رضا حیات ہراج نے ورکنگ گروپ کے ارکان کے دورے کو ’’ملک توڑنے کی سازش‘‘ قرار دیا۔
’’اس وفد کو کس نے ویزے دیے، اس کا مینڈیٹ کیا ہے، یہ کن لوگوں سے ملے گا اور کہاں کہاں جائے گا کسی کو کچھ پتا نہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری کا سوال اور بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
’’یہ وفد بلوچستان اور سندھ کا دورہ کرے گا وہاں ایک شخص بھی کہہ دے گا کہ پاکستان نہیں رہنا چاہیےتو پھر مسئلہ ہوگا۔‘‘
ایوان میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی عدم موجودگی پر وفاقی وزیر منظور وٹو نے جواب دیتے ہوئے اس معاملے پر تحریک التوا پیش کر کے ایوان میں بحث کرانے کے مطالبے کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ماہرین کی آمد سے قبل وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واضع کیا تھا کہ یہ وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر آ رہا ہے مگر یہ نا تو حقائق کی تفتیش کرنے والا اور نہ ہی ایک تحقیقاتی مشن ہے۔
’’ورکنگ گروپ کا اصل منشور ان لاپتہ افراد تک رسائی حاصل کرنے میں متاثرہ خاندانوں اور متعلقہ حکومتوں کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا ہے جن کے مقدمات ورکنگ گروپ کے حوالے کیے گئے ہوں۔‘‘
پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے بلوچستان میں بدامنی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران متنبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کے وفد کی آمد سے قبل متعلقہ حکام کو اپنے معاملات درست کر لینے چاہیئں۔