رسائی کے لنکس

پاکستان انتخابات:اقوام متحدہ کے حقوق کے ادارے کی پی ٹی آئی ارکان کو ہراساں کیے جانے پر تشویش


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن 21 اکتوبر 2022 کو کوئٹہ کی ایک سڑک پر سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے ہیں۔فوٹو
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن 21 اکتوبر 2022 کو کوئٹہ کی ایک سڑک پر سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے ہیں۔فوٹو

پاکستان میں جمعرات کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر ترک نے پاکستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ووٹنگ کو یقینی بنائیں۔ اور جمہوری عمل کے لیے اپنے عزم کی تجدید کریں۔

جنیوا میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان لِز تھروسل نے زور دیا کہ مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ عمل کو یقینی بنایا جائے۔

یہ بیان عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور انہیں مسلم لیگ نون جماعت اور اس کے امیدوار نواز شریف کی طرح جلسے جلوس نہ کرنے کی شکایات کے درمیان سامنے آیا ہے۔ حکام نے ایسی شکایات کی تردید کی ہے۔

عمران خان کو چار مقدمات میں جرم ثابت ہونے کے بعد مجموعی طور پر 34 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم یہ سزائیں اگر ایک ساتھ شروع ہوئی تو قید کا دورانیہ کسی ایک سب سے زیادہ سزا کے برابر رہ جائے گا۔

عدالت نے انہیں الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان کی پارٹی اور حامیوں نے دعویٰ کیا ہےکہ یہ پاکستان کی طاقتور فوج کے خلاف ان کی بیان بازی کی سزا تھی۔

جب کہ فوج کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کئی ارکان 9 مئی کو فوج کی تنصیبات پر حملے کرنے، توڑ پھوڑ کرنے اور انہیں نذر آتش کرنے سمیت لوگوں کو فوج کے خلاف اکسانے میں ملوث ہیں۔

الزبیتھ تھروسیل نے کہا کہ اقوام متحدہ کے حقوق کا ادارہ خان کی پارٹی اور اس کے حامیوں کو "ہراساں کیے جانے، گرفتاریوں اور رہنماؤں کی طویل حراستوں کے ’پیٹرن سے" پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام اہل جماعتوں کو منصفانہ طور پر مقابلے میں شرکت کے قابل ہونا چاہیے۔۔

عمران خان کو سزا: لوگ کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:59 0:00

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان نے کہا، "پاکستان میں جمعرات کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے، ہم سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں، اور حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک جامع اور بامعنی جمہوری عمل کے لیے لازم بنیادی آزادیوں کو برقرار رکھیں"۔

انہوں نے مزیدکہا کہ آنے والے انتخابات "پاکستان میں خواتین اور اقلیتی برادریوں بالخصوص احمدیوں کو درپیش رکاوٹوں کی یاددہانی بھی ہیں۔"

پاکستان نے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں، انتہا پسند مسلمانوں نے ان کی عبادت گاہوں اور یہاں تک کہ قبرستانوں پر بھی حملے کیے۔ احمدی کمیونٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ حملے پولیس کی موجودگی میں ہوئے۔

تھروسل نے کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کی نمائندگی کے قانونی کوٹے کو پورا نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے 22 فیصد نشستیں مخصوص ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کے لیے علیحدہ ووٹر لسٹ کی وجہ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

میرا ووٹ کیا بدلے گا؟ | اقلیتوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:31:26 0:00

منگل کو پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے کہا ہےکہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں حالیہ اضافے کے باوجود آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ حساس علاقوں میں فوج تعینات کی جائے گی۔

پاکستان نے بین الاقوامی مبصرین کو انتخابات کی نگرانی کے لیے مدعو کیا ہے، تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ "پولنگ سے پہلے دھاندلی" اور عمران خان کی پارٹی کے امیدواروں کو مسترد کیے جانے کی وجہ سے ووٹ کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ جمعرات کے انتخابات کے دوران اگر مقامی عہدہ داروں نے درخواست کی تو انٹرنیٹ میں خلل پڑ سکتا ہے۔

اس بیان کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے حکام پر زور دیا کہ وہ "ملک بھر میں ہر ایک کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن پلیٹ فارمز تک بلا روک ٹوک رسائی کی ضمانت دیں۔"

عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد، ان کے درمیان رابطوں کو محدود کرنے کے لیے پاکستان میں عام طور پر انٹرنیٹ معطل کر دیا جاتا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران، لگ بھگ 24 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں مسلح گروہوں نے سیاسی جماعتوں کے ارکان کے خلاف حملے کیے ہیں۔

یہ ووٹنگ ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب سیاسی جھگڑے اور معاشی بحران ملک کو لپیٹ میں لے رہے ہیں۔

عمران خان کے اس منظر نامے سے باہر ہونے کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے صرف ایک ہی سرفہرست دعویدار ہے، یعنی نواز شریف۔

وہ تین بار سابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ملک واپس آنے کے بعد ماضی کی سزاؤں سے بری ہو چکے ہیں۔

نواز شریف 6 جنوری کو قصور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔فوٹو اے ایف پی
نواز شریف 6 جنوری کو قصور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔فوٹو اے ایف پی

شریف کے بظاہر ایک اہم مدمقابل، مقتول وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں، منگل کے روز ریلیز سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے ووٹنگ میں جیتنے کی توقع ہے۔

اس رپورٹ کا کچھ حصہ ایسو سی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG