اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیرات سے متعلق کمیٹی کا ایک وفد ان افراد اور تنظیموں کے خلاف پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد پہنچ گیا ہےجنہیں سلامتی کونسل دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ آخری بار اس کمیٹی نے جنوری 2015 ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی کا یہ معمول کا دورہ ہے جو اس بات کا جائزہ لیے گی کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1267 پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کی ہیں۔
محمد فیصل نے مزید کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت ادا کی گئی اپنی ذمہ داریوں سے متعلق اقوام متحدہ کے وفد کو آگاہ کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وفد کو ملک کےاندر اور عالمی سطح پر دہشت گر دی کے تدارک کے لیے کی جانے والی پاکستانی کوششو ں سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان وفد کو خطے میں دہشت گردی کے خطرات سے متعلق اپنے موقف سے آگاہ کرے گا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے پاکستان قوام متحدہ کے وفد کو کس حد تک اپنے اقدامات سے مطمئن کر پائے گا اس کا انحصاد اس بات ہے کہ سلامتی کونسل کی کمیٹی کے پاس کیا شکایات ہیں۔
" اس میں بنیادی طور پر بھارت، افغانستان کی طرف سے شکایات ہو سکتی ہیں اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی معاملات اٹھائے جاتے ہیں ۔ پاکستان بھی اپنی طرف سے پاکستانی تحریک طالبان اور دیگر گروپوں کے بارے میں بات کرے گا جن کے ٹھکانے مبینہ طور پر افغانستان کے اندر موجود ہیں۔"
اقوام متحدہ کا وفد ایک ایسے وقت پاکستان کا دورہ کر رہا ہے جب بھارت اور امریکہ کی طرف سے ان شدت پسند عناصر کے خلاف کارروئی کے مطالبات سامنے آئے ہیں جو مبینہ طور ان ملکوں کے لیے خطرہ ہیں۔
واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے ایک قرا ر داد کے ذریعے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس سے منسلک افراد اور اداروں کے خلاف اکتوبر 1999 میں تعزیرات عائد کی تھیں۔
بعد ازاں سلامتی کونسل کی کمیٹی اور امریکہ نے حافظ سعیدکی جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے دیا۔
بھارت 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام حافظ سعید پر عائد کرتا ہے لیکن حافظ سعید اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
حافظ سعید کو گزشتہ سال نومبر میں تقریباً 10 ماہ کی نظر بندی کے بعد عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی رہائی پر امریکہ اور بھارت کی طرف سے تشویش کے اظہار کے ساتھ ایک بار پھر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ سامنے آیا۔
دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے حافظ سعید کے خلاف حکومت کو کسی بھی ایسی کارروائی سے روک دیا ہے جو قانون کے مطابق نہ ہوں۔ عدالت نے یہ حکم حافظ سعید کی اس درخواست کے سماعت کے بعد جاری کیا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اقوام متحدہ کے وفد کے دورہ پاکستان کے دوران حکومت ان کے خلاف کارروائی کر کے انہیں گرفتار کر سکتی ہے۔
پااکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پہلے ہی یہ کہ چکے ہیں کہ حافظ سعید کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ درج نہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہو سکتی ہے۔