اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں مزید بچیاں اور عورتیں نسوانی ختنے کی رسم کا شکار ہو رہی ہیں اور یہ اس تعداد سے بہت زیادہ ہے جس کے بارے میں پہلے خیال کیا جاتا تھا۔
جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد کم ازکم بیس کروڑ ہے جو ابھی زندہ ہیں اور اس رسم کا شکار ہوئی ہیں۔ ان میں سے ںصف کا تعلق صرف تین ملکوں مصر، ایتھوپیا او انڈونیشا سے ہے۔
صومالیہ میں ایسی خواتین اور بچیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو اس رسم کا شکار ہوئی ہیں جہاں 15 سال سے 49 سال کی عمر کی خواتین کی 98 فیصد تعداد اس عمل سے گزری ہے جبکہ گنی، جبوتی اور سیرالیون میں بھی ایسی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
یونیسف کی تحقیق کی مطابق دنیا بھر میں نسوانی ختنے کی رسم کا شکار ہونے والیوں میں سے تقریباً چار کروڑ چالیس لاکھ ایسی ہیں جن کی عمر 14 سال یا اس سے کم ہے اور جن میں سے اکثریت ایسی لڑکیوں کی ہے جن کے ختنے پانچ سال کی عمر سے پہلے کر دیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق "یمن میں 85 فیصد لڑکیوں کو اپنی زندگی کے پہلے ہفتے کے دوران اس عمل سے گزرنا پڑا"۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ نسوانی ختنے کا شکار ہونے والی خواتین کی صحیح تعداد کے بارے میں بتانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان 30 ممالک میں جہاں یہ رسم جاری ہے ان میں سے بہت کم ملکوں کے پاس قابل اعتماد اعداد و شمار موجود ہیں۔
نسوانی ختنے کی رسم ایسے ملکوں میں بھی ہے جو اس مطالعاتی جائزہ کا حصہ نہیں ہیں جیسا کہ بھارت، ملائیشیا، عمان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت اس کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، شمالی امریکہ اور یورپ کے کچھ حصوں میں بھی یہ رسم موجود ہیں جہاں ان ملکوں کے تارکین وطن مقیم ہیں جہاں اس رسم پر عمل کیا جاتا ہے۔
تاہم رپورٹ میں ایک اچھی بات یہ بتائی گئی ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں مجموعی طور پر نسوانی ختنے کا شکار ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے تاہم یہ پیش رفت (ہر جگہ) مساوی نہیں ہے۔ ایسے ممالک جہاں اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ان میں لائبیریا، برکینا فاسو اور کینیا شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2012 میں متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں عالمی سطح پر نسوانی ختنے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کیے گئے نئے اہداف میں سے ایک، اس رسم کو 2030 تک مکمل ختم کرنا بھی شامل تھا۔