اقوام متحدہ کے بدھ کے روز جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ،بھارت 2023 کے وسط تک چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائیگا ۔
لیکن اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا ، نوجوان نسل آنے والے برسوں میں بھارت کی اقتصادی ترقی کو بڑھاوا دے گی یا محض ایک بوجھ بن کر رہ جائے گی۔
بھارت کے 254 ملین افراد کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ دوسری طرف چین کو آبادی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے اور اور افزائش نسل میں کمی کا سامنا ہے۔ دونوں ملکوں میں اس عدم توازن نے ان توقعات کو جنم دیا ہے کہ یہ آبادیاتی تبدیلیاں بھارت کے لیے ایک اقتصادی اور عالمی ہیوی ویٹ بننے کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
بھارت کی نوجوان نسل آنے والے برسوں میں ملک کی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا نے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے ، لیکن اگر انہیں مناسب روزگار نہیں ملا تو آبادی میں یہ اضافہ ایک سماجی اور معاشی بحران پیدا کر دے گا۔
ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ بھارت تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کی آبادی بھی تیز رفتار سے بڑھ رہی ہےاس لیے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
دنیا کی دیگر کمپنیوں کی طرح ، دیو ہیکل ٹیکنالوجی کمپنی ایپل، ، بھارت کو ایک ممکنہ مینوفیکچرنگ مرکز میں تبدیل کرنے کی امید رکھتی ہے کیونکہ وہ اپنی کچھ پیداوار کو چین سے نکالنا چاہتی ہے، جہاں کارکنوں کی بڑھتی ہوئی عمر کام کی رفتار کو سست بنا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اجرتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کم از کم 1950 کے بعد سے جب اقوام متحدہ نے آبادی کا ڈیٹا جاری کرنا شروع کیا تھا ،چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا ۔ چین اور بھارت دونوں کی آبادی 1.4 بلین سے زیادہ ہے، اور مشترکہ طور پر ان کی آبادی دنیا کی 8 ارب آبادی کے ایک تہائی سے زیادہ ہے۔
اس دہائی کے آخر تک یہ توقع نہیں تھی کہ بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائیگا ۔ لیکن وقت تیزی سے اس طرح بدل گیا کہ چین میں افزائش نسل کی شرح میں کمی ہوتی چلی گئی ، اور خاندانوں میں کم بچے رکھنے کا رجحان بڑھ گیا۔
اس کے برعکس، بھارت کی زیادہ تر آبادی کم عمر ہے۔ شرح افزائش زیادہ ہے، اور گزشتہ تین دہائیوں میں بچوں کی اموات میں بھی بہت کمی دیکھی گئی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بچوں کی پیدائش کی شرح بھی مسلسل گر رہی ہے۔ 1960 میں ایک عورت کے پانچ سے زیادہ بچے ہوتے تھے لیکن 2020 میں یہ شرح صرف دو تک محدود ہو گئی ہے۔
76 سال قبل آزادی حاصل کرنے کے بعد سے بھارت کی آبادی چار گنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اور اب جب کہ وہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کی تیار ی کر رہا ہے، اسے آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے، شہری اور دیہی آبادی کے درمیان گہری عدم مساوات، مردوں اور عورتوں کے درمیان معاشی تفاوت، اور بڑھتی ہوئی مذہبی تقسیم کا سامنا ہے۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔