چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی وزارتِ دفاع کی درخواست پر تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو جمعرات کو طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر سیاسی جماعتیں متفق ہوتی ہیں تو پھر عدالت بھی کوئی گنجائش نکال سکتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو وزارتِ دفاع کی درخواست پر سماعت کی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق اعلیٰ عدالت کے تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اللہ ہمیں صحیح فیصلوں کی ہمت دے اور نیک لوگوں میں شامل کرے۔ جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ پڑھیں۔عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی۔اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا۔ کیا الیکشن کے لیے ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل شروع کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کرنے کے لیے بدھ کو بلاول بھٹو اُن سے مل رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، لہذٰا عدالت اگر مہلت دے تو یہ معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی اتفاقِ رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے۔ سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہو سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے بیان میں وزن ہے، بظاہر منجمد سیاسی نظام اب حرکت میں آ رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فریقین کو سیاسی درجۂ حرارت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی ، قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اُٹھایا کہ حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کے ہاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے۔مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کے لیے بھیجا۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔
'حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے'
حکومت کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات 90 روز میں کرانے کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔ آئین کے مطابق نوے دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایک دن انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت نوے دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
دورانِ سماعت فوجی افسران اور ججز کی ملاقات کا بھی حوالہ
سماعت کے دوران تین رُکنی بینچ اور افواجِ پاکستان کے دو اعلٰی افسران کی ملاقات کا بھی حوالہ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے تصدیق کی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) نے سیکریٹری دفاع کے ہمراہ اُن سے ملاقات کی۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ ملاقات میں اُنہوں نے افسران سے پوچھا کہ دوراِنِ سماعت یہ معاملہ نہیں اُٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
خیال رہے کہ ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور فوج کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اویس دستگیر نے پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سپریم کورٹ کی عمارت میں چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی تھی۔ جہاں فوجی افسران نے مختلف معاملات پر بریفنگ دی۔اس دوران اٹارنی جنرل عثمان منصور بھی موجود تھے۔
فوجی حکام کی رپورٹ میں کیا ہے؟
وزارت دفاع کی طرف سے سپریم کورٹ کے ججز کو دی گئی بریفنگ میں بھی پاکستان کو درپیش خطرات کا بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات پہلے ہونے کی صورت میں ملک دُشمن ایجنسیوں نے وفاق کو کمزور کرنے کے لیے ملک میں موجود فالٹ لائنز سے فائدہ اُٹھانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کروائی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں انتخابات سب سے پہلے ہونے پر نسلی تفریق، پانی کے تنازعات اور پنجاب کے وسائل پر قابض ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جاسکتا ہے۔اس کام میں بھارتی خفیہ ادارہ را بھی ملوث ہوسکتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھنے کا امکان ہے لیکن موسم سرما 2023 تک ملک میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان گلوبل گریٹ گیم کا شکار رہے گا، جہاں بھارت کو دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اجازت دینے والے ماحول کے ساتھ برتری حاصل ہے، ملک میں چینی مفادات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف بیرونی جارحیت کی وجہ سے خطرہ ہے بلکہ اندرونی عدم استحکام سے بھی ملک سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ 2018 اور 2021 کے مقابلے میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیوں کہ اگست 2021 کے بعد افغان طالبان کی پاکستان واپسی کے بعد افغانستان کا ماحول بدترین ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں حکومت کے ساتھ امریکی کنٹرول ختم ہو گیا ہے، 1500 دہشت گرد جیلوں سے رہا ہو چکے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے پاس جدید ترین فوجی سازوسامان دستیاب ہے، جس سے خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال میں عدالت نے اپنا فیصلہ واپس لینے کے حوالے سے صاف انکار کیا ہے تاہم صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کی آپس میں بات چیت کا کہا گیا ہے تاکہ بات چیت کے ذریعے ایک متفقہ تاریخ حاصل کرکے انتخابات کرائے جاسکیں۔
وزارتِ دفاع نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست منگل کو دائر کی تھی جسے فوری سماعت کے لیے آج ہی مقرر کیا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کے انعقاد کی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔
اعلیٰ عدالت نے پہلے وفاقی حکومت کو انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم وفاقی حکومت نے فنڈز کی فراہمی کے خلاف پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کی تو سپریم کورٹ نے براہِ راست مرکزی بینک کو فنڈز کی فراہمی کی ہدایت کی۔
اسٹیٹ بینک بھی اعلیٰ عدالت کے حکم کے مطابق انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہیں کر سکا ہے۔
دوسری جانب ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور فوج کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اویس دستگیر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت دو ججز سے دو روز قبل سپریم کورٹ کی عمارت میں ملاقات کی۔
اس ملاقات کے دوران فوجی افسران نے ججز کو ملک کی موجودہ سیکیورٹی صورتِ حال، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور انتخابات میں فورسز کی دستیابی سمیت مختلف امور سے آگاہ کیا۔ یہ ملاقات لگ بھگ تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی جس کے دوران اٹارنی جنرل عثمان منصور بھی موجود تھے۔
فوجی افسران کی سپریم کورٹ کے ججوں سے ملاقات پر مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہیں اور ملک میں سیاسی تناؤ کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں اختلافات کے دوران اگر اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی کردار ادا کرسکتی ہے تو ملک کے لیے بہتر ہوگا۔