رسائی کے لنکس

افغانستان میں 'ماورائے عدالت' قتل اورانسانی حقوق کی 'سنگین'خلاف ورزیاں: اقوام متحدہ کی رپورٹ


افغانستان سیکیورٹی
افغانستان سیکیورٹی

ویب ڈیسک۔ اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ اس نے افغانستان میں کم از کم 218'ماورائے عدالت' قتل اور سینکڑوں دیگر انسانی حقوق کی 'سنگین' خلاف ورزیاں ریکارڈ کیں اور ان سب کا تعلق طالبان کے افغانستان پر دو سال سے جاری اقتدارسے ہے۔

متاثرین میں مبینہ طور پر بیشتر ایسے افراد شامل تھے جن کا تعلق کابل میں امریکی حمایت یافتہ سابق حکومت سے تھا۔ ان افراد میں فوجی، انٹیلی جنس اور پولیس اہلکار شامل تھے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) یا یوناما نے اپنی نئی رپورٹ میں کہا کہ ’’بیشتر صورتوں میں ان افراد کو ڈی فیکٹو (طالبان) سیکورٹی فورسز کی جانب سے ان کی موت سے پہلے کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ افراد کو حراست میں لے کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ دوسروں کو قتل کرنے سے پہلے نامعلوم مقامات پر لے جایا گیا۔ اس کے بعد ان کی لاشوں کو یا تو پھینک دیا گیا یا پھر ان کے خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا۔

یوناما نے ماورائے عدالت قتل، گرفتاری، تشدد اور جبری گمشدگی کے 800 واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے اوراس کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے سابق افغان اہلکاروں کے لیے 'عام معافی' کے اعلان کےباوجود یہ واقعات پیش آئے۔

2021 طالبان جنگجو کابل میں گشت کرتے ہوئے 19 اگست
2021 طالبان جنگجو کابل میں گشت کرتے ہوئے 19 اگست

امریکی زیرقیادت نیٹو فوجیوں نے تقریباً 20 سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کیا تو اس وقت کے باغی طالبان نے 15 اگست 2021 کو ملک کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا ۔ یو ناما کی طرف سے رپورٹ کی گئی زیادہ تر ہلاکتیں طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے کے چار ماہ کے دوران ہوئیں۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سابق حکومتی ارکان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔اس میں وہ افراد بھی شامل تھے جو انتقام کے خوف سے ملک سے فرار ہوئے ۔

یوناما نے کہا کہ ’’ ڈی فیکٹو حکام کی طرف سے عام معافی کا اعلان ایک خوش آئند قدم تھا۔ تاہم انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ عام معافی کے فیصلےکی پاسداری نہیں کی گئی۔‘‘

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کے الزامات کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عام معافی کو موثر اور مکمل طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر لکھا کہ متعلقہ حکام نے'ذاتی انتقام'کے کچھ واقعات کی چھان بین کی تھی جن میں نامعلوم افراد شامل تھے، لیکن ان کی تعداد'بہت کم' تھی۔طالبان کے ترجمان نے الزام لگایا کہ 'اقوام متحدہ کے نظام میں شامل کچھ ادارے افغانستان میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کے لیے منفی پیش رفت کی تلاش میں رہتے ہیں۔'

فائل فوٹو
فائل فوٹو

یوناما نے طالبان کی زیر قیادت وزارت خارجہ کی طرف سے عام معافی کی مبینہ خلاف ورزیوں کی رپورٹ سے اختلاف کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اسے یعنی وزارت خارجہ کو ایسی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے جس میں عام معافی کے حکم کی عدم تعمیل کا ذکر ہو۔وزارت نے حکم عدولی کرنے والوں کی تحقیقات کرنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا۔

وزارت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ طالبان فورسز نے سابق افغان حکومت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے کسی فوجی اہلکار کو حراست میں لیا یا تشدد کا نشانہ بنایا۔ تاہم یہ تسلیم کیا کہ طالبان کی حکومت کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ طالبان اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ کہتے ہیں۔

وزارت نے کہا کہ ’’سابق انتظامیہ کے فوجی عملےکے کسی بھی رکن کو سیکیورٹی اداروں میں سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتاری، حراست یا تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ سابقہ انتظامیہ کے وہ ملازمین جنہوں نے امارت اسلامیہ کے مخالف گروپوں میں شمولیت اختیار کی یا نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے عسکری کارروائیاں کیں، انہیں گرفتار کر کے عدالتی حکام کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔‘‘

طالبان کی وزارت نے یوناما سے کہا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں 'مخصوص اور دستاویزی دعوے' کو شیئر کرے تاکہ سیکورٹی فورسز ان کی تحقیقات کر سکیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے ہائی کمشنر وولکر ترک نے یو ناما کی رپورٹ کے ساتھ جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے نتائج نے افغان حکومت کی جانب سے سابق اہلکاروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی ایک'سنگین تصویر' پیش کی ہے۔

وولکر ترک نے کہا کہ'اصل بات تو یہ ہے کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا تو ایسے میں یہ لوگوں کے اعتماد کو دھوکہ دینا ہے' ۔انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی مزید خلاف ورزیوں کو روکیں اورایسی کارروائیاں کرنے والے ذمہ داروں کا محاسبہ کریں۔

کسی بھی غیر ملکی حکومت نے اب تک طالبان کو افغانستان کا جائز حکمران تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ انسانی حقوق پر تحفظات اور خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں تک رسائی پر عائد پابندیاں ہیں ۔طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے منگل کو اپنے الزامات کا اعادہ کیا کہ مغربی ممالک انسانی حقوق کے معاملے کو ’’دباؤ کے حربے‘‘ اور ’’بہانے‘‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے سے انکار کیا جا سکے۔

(ایاز گل وائس آف امریکہ)

فورم

XS
SM
MD
LG