واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے۔
شام کے دورے سے حال ہی میں لوٹنے والے اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ جان گِنگ کے بقول انہوں نے اپنے دورے میں "شدید دکھ میں مبتلا کردینے والی تکالیف اور بے انتہا تباہی" کا مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں شمال میں حلب اور جنوب میں دارعا سرِ فہرست ہیں۔
خیال رہے کہ حلب شام میں اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جب کہ دارعا سے دو برس قبل بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک کا اس وقت آغاز ہوا تھا جب کم سن طلبہ کے ایک گروپ نے اپنے اسکول کی دیواروں پر حکومت مخالف نعرے تحریر کردیے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے نیویارک میں قائم صدر دفتر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان گِنگ نے بتایا کہ حلب کا شہر دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے جس میں سے ایک پر حکومت اور دوسرے پر باغیوں کا قبضہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے زیرِانتظام شہر کے حصے میں دن میں ایک یا دو گھنٹے بجلی آتی ہے، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے لیکن علاقے میں دکانیں کھلتی ہیں اور انہیں اشیائے ضروریہ بھی مہیا ہورہی ہیں۔
لیکن،گِنگ کے بقول، باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس اور بہت بری ہے، گلیاں ملبے سے اٹی ہوئی ہیں، بجلی سرے سے مفقود ہے، فون اور موبائل سروس معطل ہے اور ایندھن کی کمیابی کے باعث ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کے مطابق انہیں دورے کے دوران میں بتایا گیا کہ باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں عوام کو پانچ دن میں ایک بار پانی ملتا ہے جب کہ دکانیں خالی اور ویران پڑی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال کے باعث اسکولوں، اسپتالوں اور گھروں کو پہنچنے والا نقصان انتہائی شدید نوعیت کا ہے جس کی تعمیرِ نو کے لیے کئی عشرے درکا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس تخمینے کے نتیجے میں شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں میں تیزی آنی چاہیے تاکہ ملک کے انفراسٹرکچر کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔
شام کے دورے سے حال ہی میں لوٹنے والے اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ جان گِنگ کے بقول انہوں نے اپنے دورے میں "شدید دکھ میں مبتلا کردینے والی تکالیف اور بے انتہا تباہی" کا مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں شمال میں حلب اور جنوب میں دارعا سرِ فہرست ہیں۔
خیال رہے کہ حلب شام میں اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جب کہ دارعا سے دو برس قبل بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک کا اس وقت آغاز ہوا تھا جب کم سن طلبہ کے ایک گروپ نے اپنے اسکول کی دیواروں پر حکومت مخالف نعرے تحریر کردیے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے نیویارک میں قائم صدر دفتر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان گِنگ نے بتایا کہ حلب کا شہر دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے جس میں سے ایک پر حکومت اور دوسرے پر باغیوں کا قبضہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے زیرِانتظام شہر کے حصے میں دن میں ایک یا دو گھنٹے بجلی آتی ہے، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے لیکن علاقے میں دکانیں کھلتی ہیں اور انہیں اشیائے ضروریہ بھی مہیا ہورہی ہیں۔
لیکن،گِنگ کے بقول، باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس اور بہت بری ہے، گلیاں ملبے سے اٹی ہوئی ہیں، بجلی سرے سے مفقود ہے، فون اور موبائل سروس معطل ہے اور ایندھن کی کمیابی کے باعث ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کے مطابق انہیں دورے کے دوران میں بتایا گیا کہ باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں عوام کو پانچ دن میں ایک بار پانی ملتا ہے جب کہ دکانیں خالی اور ویران پڑی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال کے باعث اسکولوں، اسپتالوں اور گھروں کو پہنچنے والا نقصان انتہائی شدید نوعیت کا ہے جس کی تعمیرِ نو کے لیے کئی عشرے درکا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس تخمینے کے نتیجے میں شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں میں تیزی آنی چاہیے تاکہ ملک کے انفراسٹرکچر کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔