اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو روزمرہ ضروریات زندگی کے لیے منجمد کیے گئے بینک اکاؤنٹس سے رقم نکالنے کی اجازت دے دی ہے۔
حافظ سعید کو ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے نکلوانے کی اجازت دی گئی جو ان کی پینشن اور ان کے بیٹے کی طرف سے بھجوائی جائے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی سلامتی کونسل کی طرف سے دیے جانے والے استشنیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حافظ سعید اور دیگر افراد کو دی گئی سہولت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کی پابندی عائد کرنے والی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ حافظ سعید اور دیگر افراد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو استشنیٰ کی یہ درخواست دی جسے کمیٹی نے اپنی معمول کی کارروائی میں منظور کر لیا۔
ترجمان کے بقول، بھارتی میڈیا کے بعض لوگ اس معاملے پر غیر ضروری سیاست کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو منفی رنگ دے رہے ہیں۔
جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید سمیت 3 افراد کی جانب سے سلامتی کونسل میں درخواست دی گئی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے واحد کفیل ہیں۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں جن کے باعث انہیں اہل خانہ کی کفالت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لہٰذا، انہیں روزمرہ اخراجات کے لیے اپنے بینک اکاؤنٹس سے رقم نکلوانے کی اجازت دی جائے۔
جن دیگر دو افراد نے یہ درخواست دی ان میں حاجی محمد اشرف اور ظفر اقبال شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی دستاویز کے مطابق، حافظ سعید کی اس درخواست پر کسی نے بھی مقررہ تاریخ 15 اگست تک کوئی اعتراض نہیں کیا، جس پر سلامتی کونسل کمیٹی نے انہیں بنیادی ضروریات کے لیے منجمد اکاؤنٹس سے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے نکالنے کی اجازت دے دی۔
سابق سفیر آصف درانی کہتے ہیں کہ عراق پر بھی پابندیوں کے باوجود انہیں بنیادی ضروریات کے لیے تیل فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت عراق کو سخت پابندیوں کے دور میں بھی ادویات اور خوراک کے لیے یہ سہولت فراہم کی گئی تھی۔ لہٰذا، اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
حافظ محمد سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے جس کے باعث ان کے اکاؤنٹس منجمد ہیں اور وہ دہشت گردی کے مقدمات میں جیل میں ہیں۔ رواں سال جولائی میں انہیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا ہے۔ حافظ سعید کو امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم بھی رکھی گئی ہے۔
سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ان پر کیسز ابھی چل رہے ہیں۔ حافظ سعید پر پاکستان میں مختلف کیسز ہیں۔ لیکن اب تک ان کے فیصلے نہیں آئے اور ماضی میں انہیں مختلف کیسز میں شامل ہونے کی وجہ سے گرفتار بھی کیا گیا لیکن ان کی ضمانت ہوتی رہی۔ ایک عام انسان کو ضروریات زندگی کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔
پاکستان پر حالیہ عرصے میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا شدید دباؤ تھا جس کی وجہ سے پاکستان نے حافظ سعید کی جماعت بلکہ ان سے منسلک فلاحی تنظیموں اور ذیلی تنظیموں کو بھی کالعدم قرار دیکر ان کے تمام اثاثے قبضہ میں لے لیے ہیں۔ ایف ای ٹی ایف کی طرف سے دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے حوالے سے کیے گئے مطالبے پر ان تمام کالعدم جماعتوں کے اکاؤنٹس منجمد ہیں۔
سینئر صحافی مجاہد حسین کہتے ہیں کہ ایک بوڑھے شخص سے جینے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ حافظ سعید ایک ریٹائرڈ آدمی ہیں اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم اور اپنی ادویات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایسی اجازت دینا کوئی بہت بڑی رعایت نہیں ہے۔
حافظ سعید کو ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے میں سے 70 ہزار خوراک، 25،25 ہزار ادویات اور یوٹیلیٹی بلز اور 30 ہزار روپے بچوں کی تعلیم کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ درخواست میں ان کی زیر کفالت اہلیہ اور تین بچوں کے نام بھی فراہم کیے گئے ہیں۔