اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یمن میں مقیم حوثی عسکریت پسندوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کے ایک سلسلے کے بعد اس اہم آبی گزرگاہ کی سیکیورٹی پر گفتگو کے لیے بدھ کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
حوثیوں نے اکتوبر سے ڈرون، میزائل اور کشتیوں سے حملے شروع کیے ہیں، جن میں ان کے بقول اسرائیل سے منسلک یا وہاں جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ کارروائیا ں کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے ترجمان نیٹ ایونز نے ایک بیان میں کہا، “یمن میں حوثیوں کے کنٹرول کے علاقوں سے ہونے والے متعدد بلاجواز حملے بین الاقوامی تجارت اور سمندری سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔”
ان حملوں کے جواب میں امریکی اور برطانوی فورسز نے فوجی کارروائیاں کی ہیں اور امریکہ کو جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے ملکوں کا ایک اتحاد قائم کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
متعدد تجارتی کارگو کمپنیوں نے اپنے کاموں میں ردو بدل کرتے ہوئے بحری جہازوں کو بحیرہ احمر سے دور بھیج دیا ہے اور بحریہ روم تک اپنی رسائی کے لیے نہر سویز کے راستے کی بجائے افریقہ کے جنوبی سرے کے ارد گرد ایک زیادہ طویل راستہ استعمال کر رہی ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے منگل کو دیر گئے حوثیوں کے ایک نئے حملے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ جنگجوؤں نے یمن سے جنوبی بحیرہ احمر میں دو اینٹی شپ بیلسٹک میزائل داغے۔
CENTCOM کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں متعدد تجارتی جہازوں نے اطلاع دی ہے کہ میزائل پانی میں گرے ہیں، اور کسی نقصان کی کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے۔
CENTCOM نے کہا،” ان غیر قانونی کارروائیوں نےدرجنوں بے گناہ میرینرز کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا اور ان کے نتیجے میں بین الاقوامی تجارت کے آزادانہ بہاؤ میں مسلسل خلل پیدا ہو رہا ہے ۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ” یہ 19 نومبر کے بعد سے جنوبی بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کے خلاف 24 واں حملہ ہے۔"
آبی گزرگاہ کی اہمیت
بحیرۂ احمر کے ذریعے دنیا کی لگ بھگ 12 فی صد تجارت ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر آبنائے باب المندب ہے جب کہ دوسرے کنارے پر سوئز کینال ہے۔
اس سمندری راستے کے ایک طرف یمن اور سعودی عرب ہیں جب کہ دوسری طرف سوڈان اور مصر ہیں۔
غزہ میں جاری جنگ کے دوران یمن کے ایک بڑے حصے پر قابض حوثی باغی بحیرۂ احمر سے گزرنے والے ہر اس مال بردار بحری جہاز کو نشانہ بنا رہے ہیں جس پر انہیں یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اسرائیل سے ہے۔
وی او اے نیوز
فورم