افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاونتی مشن ‘یوناما’ نے ملک میں برسرِ اقتدار طالبان کے خواتین کو لازمی طور پر برقع پہننے سے متعلق ہدایات جاری کرنے پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔
یوناما کے مطابق ان کو ملنے والی اطلاعات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ہدایات سفارشات کے بجائے باقاعدہ احکامات ہیں جن پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔
طالبان نے رواں ماہ سات مئی کو خواتین کے بارے میں نئی ہدایات جاری کی تھیں جنہیں پورے ملک میں نافذ العمل قرار دیا گیا تھا۔
طالبان کا کہنا تھا کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والی خاتون کے مرد سرپرست کو سزا دی جائے گی۔
طالبان کی وزارت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ہدایت نامے میں کہنا تھا کہ خواتین کے لیے حجاب فرض اور ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ہدایت نامے میں کہا گیا تھا کہ سیاہ رنگ کے کپڑے اور چادر کو بھی برقعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ کہ وہ باریک نہ ہو جس سے جسم نظر آنے کا اندیشہ ہو اور جسم کے اعضا نمایاں ہو سکیں۔
ہدایت نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ چادری جو کہ عرصہ دراز سے باعزت افغان ثقافت کا حصہ ہے، شرعی حجاب کی بہترین مثال ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں چادری سے مراد سر سے پاؤں تک جسم کو ڈھانپنا ہے اور اسے برقع بھی کہا جاتا ہے۔
یوناما کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کا یہ اقدام ان کی انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کے حوالے سے متعدد یقین دہانیوں سے متصادم ہے جو طالبان کی جانب سے بین الاقوامی برادری کو فراہم کی گئی تھیں۔
یہ یقین دہانیاں گزشتہ سال اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد دہرائی گئیں اور باور کرایا گیا کہ خواتین کو ان کے حقوق فراہم کیے جائیں گے، خواہ وہ کام، تعلیم یا معاشرے سے متعلق ہی کیوں نہ ہوں۔
بین الاقوامی برادری طالبان کی جانب سے مثبت اشاروں کے انتظار میں تھی تا کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات استوار کر سکیں۔
خیال رہے کہ ڈیڑھ ماہ قبل افغانستان میں لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولنے کے فیصلے کو ملتوی کیے جانے پر نہ صرف بین الاقوامی برادری بلکہ علاقائی اور مقامی سطح پر بھی مذمت کی گئی تھی۔
یوناما کا مزید کہنا ہے کہ طالبان کے مذکورہ فیصلے سے ان کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
بیان میں یوناما کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان کے رہنماؤں سے ملاقات کی جائے تا کہ اس فیصلے پر وضاحت طلب کی جا سکے۔
یوناما اس فیصلے کے مضمرات کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے اراکین کے ساتھ مشاورت میں بھی شامل رہے گا۔
گزشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان نے خواتین سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں جن میں مخلوط تعلیم کا خاتمہ، 70 کلومیٹر سے زائد سفر کے لیے محرم کی شرط، مردوں اور خواتین کا الگ الگ دنوں میں تفریحی مقامات پر جانے سے متعلق ہدایات شامل تھیں۔