پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں شیشپر گلیشیئر پر بننے والی جھیل سے پانی کے بہت زیادہ اخراج کے باعث حسن آباد کے مقام پر گلگت اور ہنزہ کو ملانے والا پل ٹوٹ گیا ہے جب کہ شاہراہِ قراقرم ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔
شاہراہ قراقرم بند ہونے کی وجہ سے چھوٹی گاڑیوں کو متبادل راستے کے ذریعے نگر سے گینش کے مقام پر دوبارہ شاہراہِ قراقرم پر لایا جا رہا ہے۔ بڑی گاڑیوں کو مرتضیٰ آباد کے علاقے سے آگے نہیں جانے دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں پیٹرولیم مصنوعات اور غذائی اجناس کے حوالے سے تشویش بڑھ گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گلیشیئر پگلنے کے باعث متعدد گھر بھی متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس دوران کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
گلگت بلتستان کے قدرتی آفات سے نمنٹنے والے ادارے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شیشپر گلیشیئر کے پھٹنے کے بعد پانی کا اخراج 10 ہزار کیوسک فٹ تک پہنچ گیا تھا تاہم اب پانی کے بہاؤ کا لیول چھ ہزار کیوسک فٹ ہے۔
ان کے مطابق طغیانی کی وجہ سے گھروں، باغات، جنگلات اور ایک جماعت خانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین کی کٹائی سے پانی کے چینلز بھی شدید متاثر ہوئے ہیں جس کے بعد لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
محمد علی نےمزید بتایا ہے کہ شیشپر گلیشیئر کے پانی کا بہاؤ اتنا شدید تھا کہ حسن آباد کے مقام پر 200 فٹ لمبے پل کے علاوہ تقریباً آدھے کلومیٹر تک شاہراہ قراقرم کو متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑک کی مرمت اور پانی کی سپلائی لائن کی بحالی میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
مقامی صحافیوں کے ساتھ ساتھ علاقے کے دیگر افراد نے بھی سوشل میڈیا پر اس ہنگامی صورتِ حال کو اجاگر کیا۔ اس حوالے سے حسن آباد پل کی ویڈیوز کافی وائرل ہوئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق شیشپر گلیشیئر گلگت بلتستان کے ان درجنوں گلیشیئرز میں سے ایک ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت مختلف وجوہات کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس گلیشیئر میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی آبادی پہلے سے ہی خوف کا شکار تھی اور موجودہ ہیٹ ویو کے باعث لوگوں کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق اس وقت شیشپر گلیشیئر کا جھکاؤ تقریبا ڈھائی کلومیٹر نیچے وادی کی جانب ہے اور جب تک یہ ڈھائی کلومٹیر پر پھیلی ہوئی برف پگل کر نیچے نہیں آ جاتی، اس وقت تک ہر سال علاقے کے لیے یہ خطرہ برقرار رہے گا۔
ٹورسٹ پولیس گلگت بلتستان کے مطابق چھوٹی گاڑیوں کو متبادل راستوں پر منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ بڑی گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی علی احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شیشپر گلیشیئر کے پگلنے کا آغاز پانچ سال قبل ہوا۔ سردیوں میں اس گلیشیئر پر مختلف جھیلیں بن جاتی ہیں جو کہ موسم گرما میں پگلنا شروع ہو جاتی ہیں جو کہ علاقے میں طغیانی کا سبب بنتی ہیں اور مقامی افراد کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ زمین کی کٹائی، شاہراہ قراقرم اور پانی کی سپلائی لائن کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
علی احمد کے مطابق ہنزہ کی آبادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے جس کے بعد سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی بھی سیاح وادی میں پھنسا ہوا نہیں ہے اور جو ہنزہ میں سیاحت کے لیے آئے ہوئے تھے انہیں نگر کے راستے واپس بھیج دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر ہنزہ محمد علی عثمان کے مطابق اس وقت وادی ہنزہ میں کوئی بھی سیاح قدرتی آفت کے باعث پھنسا ہوا نہیں ہے۔
ان کے مطابق مقامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ 120 غیر ملکی سیاح موجود ہیں اور ان کا محکمہ وادی کے تمام ہوٹلز کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت اشیائے خور و نوش کا اسٹاک ایک مہینے سے زیادہ کا دستیاب ہے۔ پیٹرول میں وقتی طور پر قلت ضرور آئی ہے تاہم ڈیزل مکمل طور پر دستیاب ہے۔
ڈپٹی کمشنر ہنزہ کا کہنا تھا کہ ایسے تمام گھرانے جو کہ مشکلات سے دوچار تھے انہیں محفوظ مقامات پر لے جایا گیا ہے اور خوراک کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلابی ریلے کے باعث بنیادی طور پر انفراسٹرکچر کا نقصان ہوا ہے۔ جس کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے جس کے بعد بحالی کے کام شروع کیے جائیں گے۔
شیشپر گلیشیئر کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر محمد علی عثمان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیمیں علاقے میں ہیں اور ڈرون فوٹیج کو ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جائے گا جس کے بعد ہی گلیشیئر اور وہاں پر بننے والی جھیلوں کی تازہ صورت حال کے بارے میں معلومات ممکن ہو پائے گی۔