واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے شام کے صدر بشار الاسد کی افواج کی مذمت اور حزبِ اختلاف کی حمایت میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کی کثرتِ رائے سے منظوری دیدی ہے۔
بدھ کو جنرل اسمبلی کے 193 رکن ممالک میں سے 107 نے خلیجی ملک قطر کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا۔
بارہ ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی جب کہ 59 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد کی حمایت میں آنے والے ووٹوں کی تعداد گزشتہ برس جنرل اسمبلی ہی میں منظور کی جانے والی اسی نوعیت کی ایک قرارداد سے کہیں کم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں سرکاری افواج کے ساتھ ساتھ باغیوں کی کاروائیوں پر بھی عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔
گزشتہ برس شامی حکومت کی مذمت میں منظور کی جانے والی قرارداد 12 کے مقابلے میں 133 ووٹوں سے منظور کی گئی تھی جب کہ 31 ممالک نے رائے شماری میں حصہ لینے سے گریز کیا تھا۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا قریبی اتحادی روس بدھ کو منظور کی جانے والی قرارداد کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔
روس اور چین اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مختلف اوقات میں شامی صدر اسد کی مذمت میں پیش کی جانے والی تین قراردادوں کو ویٹو کرچکے ہیں۔
تاہم عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں 'ویٹو' کا حق نہ ہونے کے باعث ماسکو قرارداد کو منظور ہونے سے نہ روک سکا اور صرف اس کی سخت مخالفت پر ہی اکتفا کیا۔
روس کے علاوہ ایران، بولیویا اور وینزویلا نے بھی قرارداد کی مخالفت کی۔ ماضی میں عالمی اداروں میں شامی حکومت کے خلاف قراردادوں کی حمایت کرنے والے جنوبی افریقہ نے بھی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں جنوبی افریقہ کے سفیر کنگسلے ممابولو نے خبردار کیا تھا کہ قرارداد کے نتیجے میں شام میں بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا اختیار مل جائے گا۔
مغربی اور خلیجی عرب ممالک کی بھرپور حمایت سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کے اولین مسودے میں اقوامِ متحدہ میں شام کی نشست حزبِ اختلاف کے نمائندہ اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' کو دینے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
لیکن سفارت کاروں کے مطابق قرارداد کی منظوری کے لیے کی جانے والی ابتدائی گفت و شنید میں کئی ممالک کی جانب سے تحفظات کےا ظہار کے باعث اس متن کو تبدیل کردیا گیا۔
سفارت کاروں کے مطابق کئی ایسے ممالک کو قرارداد کے ابتدائی متن پر تشویش تھی جہاں کی حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ خود ان کے خلاف بھی مستقبل میں کوئی باغی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔
رائے شماری سے قبل جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفاری نے خبردار کیا کہ قرارداد کے نتیجے میں شامی بحران کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو دھچکا پہنچے گا۔
بدھ کو جنرل اسمبلی کے 193 رکن ممالک میں سے 107 نے خلیجی ملک قطر کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا۔
بارہ ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی جب کہ 59 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد کی حمایت میں آنے والے ووٹوں کی تعداد گزشتہ برس جنرل اسمبلی ہی میں منظور کی جانے والی اسی نوعیت کی ایک قرارداد سے کہیں کم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں سرکاری افواج کے ساتھ ساتھ باغیوں کی کاروائیوں پر بھی عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔
گزشتہ برس شامی حکومت کی مذمت میں منظور کی جانے والی قرارداد 12 کے مقابلے میں 133 ووٹوں سے منظور کی گئی تھی جب کہ 31 ممالک نے رائے شماری میں حصہ لینے سے گریز کیا تھا۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا قریبی اتحادی روس بدھ کو منظور کی جانے والی قرارداد کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔
روس اور چین اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مختلف اوقات میں شامی صدر اسد کی مذمت میں پیش کی جانے والی تین قراردادوں کو ویٹو کرچکے ہیں۔
تاہم عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں 'ویٹو' کا حق نہ ہونے کے باعث ماسکو قرارداد کو منظور ہونے سے نہ روک سکا اور صرف اس کی سخت مخالفت پر ہی اکتفا کیا۔
روس کے علاوہ ایران، بولیویا اور وینزویلا نے بھی قرارداد کی مخالفت کی۔ ماضی میں عالمی اداروں میں شامی حکومت کے خلاف قراردادوں کی حمایت کرنے والے جنوبی افریقہ نے بھی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں جنوبی افریقہ کے سفیر کنگسلے ممابولو نے خبردار کیا تھا کہ قرارداد کے نتیجے میں شام میں بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا اختیار مل جائے گا۔
مغربی اور خلیجی عرب ممالک کی بھرپور حمایت سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کے اولین مسودے میں اقوامِ متحدہ میں شام کی نشست حزبِ اختلاف کے نمائندہ اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' کو دینے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
لیکن سفارت کاروں کے مطابق قرارداد کی منظوری کے لیے کی جانے والی ابتدائی گفت و شنید میں کئی ممالک کی جانب سے تحفظات کےا ظہار کے باعث اس متن کو تبدیل کردیا گیا۔
سفارت کاروں کے مطابق کئی ایسے ممالک کو قرارداد کے ابتدائی متن پر تشویش تھی جہاں کی حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ خود ان کے خلاف بھی مستقبل میں کوئی باغی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔
رائے شماری سے قبل جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفاری نے خبردار کیا کہ قرارداد کے نتیجے میں شامی بحران کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو دھچکا پہنچے گا۔