یہاں دھول جمی ہوئی ہے، راستے ناہموار ہیں۔ یہ جھونپڑیوں پر مشتمل بستی ہے۔ اس کی ویرانی کو روہنگیا خاندانوں نے پُر کیا ہے، جن کے تقریباً 70 خاندان نئی دہلی کے مضافات میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ بستی غربت کی داستان پیش کرتی ہے۔ لیکن، ایک خاموشی کا سا عالم ہے۔
ایسے میں، بچے کھیل کود میں مشغول ہیں، خواتین ایک ٹینکر سے پانی لا رہی ہیں۔ ادھر ایک عمر رسیدہ شخص خاموشی سے رَدی کے ڈھیر میں سے رزق تلاش کرنے کی جستجو میں مگن ہے۔ اور نہیں تو، لکڑی کے ٹوٹے تو میسر آہی جائیں گے، جنھیں چولہا جلانے کے لیے کام میں لایا جائے گا۔
تاہم، اس خاموشی کے سایے میں مہاجرین کے اندر ایک کھچاؤ کی سی کیفیت کَروٹ لے رہی ہے، چونکہ اطلاعات یہ ہیں کہ حکام تلاش کے ایک منصوبے پر عمل پیرا ہیں، جس کے بعد اِس زیادہ تر مسلمان اقلیت کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ وہ بے سر و سامانی کے عالم میں میانمار سے بچ نکلے تھے، جہاں اُنھیں مبینہ مظالم کا سامنا تھا۔
نفر فاطمہ کی عمر 30 برس ہے۔ ایک عشرہ قبل وہ بھارت آئیں۔ اُنھیں جان کا خطرہ لاحق رہا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ اس قابل بنی ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ یہی حالات رہے تو اُنھیں ڈر ہے کہ کہیں پھر سے وہی داستان نہ دہرائی جائے۔ وہ پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہیں۔
ایک بوسیدہ کمرے میں رہنے کے باوجود وہ تین بچوں کے ساتھ خوش ہیں، جو بھارت ہی میں پیدا ہوئے۔ اُنھیں کوئی شکایت نہیں چونکہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ کم از کم وہ محفوظ ہیں۔ وہ اُس رنج و علم سے بچی ہوئی ہیں جب میانمار میں باہر نکلتی تھیں تو ہمیشہ اُنھیں فرقہ وارانہ تشدد کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ اُس علاقے میں روہنگیا مسلمان آباد تھے۔ یہ ایک قصہٴ پارینہ بن چکا ہے۔ بقول اُن کے، ’’ہمارے لیے بھارت بہتر ہے‘‘۔
نئی دہلی کی بستی میں، وہ اور دیگر مہاجرین ایک چھوٹی سی قطعہٴ ارضی پر رہتے ہیں، جو ’زکواة فاؤنڈیشن‘ نے اُنھیں خیرات میں دی ہے؛ جب کہ روزگار کے لیے وہ روزانہ کی بنیاد پر زیادہ تر مزدوری کرتی ہیں۔ بس، اتنا ملتا ہے کہ گزارا ہو جاتا ہے۔
روہنگیاؤں کو ملک بدری کا خطرہ
لیکن، ہندو گروہوں کی جانب سے یہ مطالبہ کہ اِنھیں ملک بدر کیا جائے، روہنگیا مسلمان غیر یقینی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ بھارت کے مختلف شہروں میں اُن کی کُل تعداد اندازاً 40،000 ہے۔ لیکن، وہ مختلف شہروں میں بکھرے ہوئے ہیں۔
شکوہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’سبھی اس سوچ میں گم ہیں کہ کیا کریں۔ مجھے یہ مشکل درپیش ہے کہ میرے ساتھ اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟ میری تقدیر میں مشکلات کیوں لکھی گئی ہیں؟‘‘
شمال میں سلامتی کے معاملات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں
ادھر، جموں کے شمالی شہر میں آباد 6000 روہنگیا مہاجرین کو مزید خدشات لاحق ہیں، جہاں اُنھیں نکالنے کی کوششیں شد و مد کے ساتھ جاری ہیں۔
جموں میں ،حالیہ دِنوں، روہنگیا مسلمانوں کی کئی جھونپڑیاں نذرِ آتش کی جاچکی ہیں۔ اِس کے بعد، مہاجرین کو غیر یقینی حالات کا سامنا ہے۔
ایک اور واقع میں، ایک کمیونٹی لیڈر، کریم اللہ نے الزام لگایا ہے کہ اُن کی چھوٹی سی دوکان، جہاں اُنھوں کباڑ کا سامان اکٹھا کر رکھا تھا، تاکہ روزگار کما سکیں، اُسے نذر آتش کیا گیا ہے؛ جب کہ نامعلوم افراد نے اُن کے اہل خانہ کو مارا پیٹا ہے؛ جب کہ جُھگی کے مالک، اُنھیں مکان خالی کرنے کے لیے کہہ چکے ہیں۔
اِن واقعات کے نتیجے میں، روہنگیا مہاجرین میں بے چینی جاری ہے۔ اُنھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن کے لیے زمین کیوں تنگ پڑ گئی ہے۔
کریم اللہ کے بقول، ’’دس برس میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مجھے اس قسم کی مشکل درپیش ہے۔ اب میرے اوسان خطا ہوچکے ہیں کہ آگے کیا ہوگا‘‘۔
پولیس نے کہا ہے وہ اِن واقعات کی چھان بین کی جارہی ہے۔