رسائی کے لنکس

بھارتی مفادات کیلئے کام کرنے والے 265 جعلی میڈیا ادارے


فوٹو: ای یو ڈس انفو لیب
فوٹو: ای یو ڈس انفو لیب

یورپی یونین کی غلط اور جعلی اطلاعات کی تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’ای یو ڈس انفو لیب‘‘ کا کہنا ہے کہ اس نے دنیا کے 65 ممالک میں 265 ایسے جعلی میڈیا اداروں کا سراغ لگایا ہے جو نہ صرف بھارتی مفادات کیلئے کام کر رہے ہیں بلکہ ان کا انتظام و انصرام بھی بھارتی سٹیک ہولڈرز کے پاس ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ ان جعلی میڈیا اداروں میں سے eptoday.com ویب سائٹ برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کیلئے خود ساختہ نیوز میگزین ہے جو بعض مخصوص ویب سائٹس کی خبریں بہت زیادہ تعداد میں باربار شائع کرتا رہتا ہے اور انفو لیب نے اس میگزین میں غیر متوقع طور پر بڑی تعداد میں پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق خبریں اور مضامین کے علاوہ بھارت سے متعلقہ مواد دیکھا ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ میگزین بھارتی سٹیک ہولڈرز چلا رہے ہیں جن کے رابطے بہت سے تھنک ٹینکس، غیر سرکاری تنظیموں اور سری واستوا نامی گروپ کی بہت سی کمپنیوں سے ہیں۔ سری واستوا گروپ کے آئی پی ایڈریس آن لائن نیوز گروپ ’’نیو انڈیا ٹائمز‘‘ اور غیر وابستہ تدریس کے بین الاقوامی ادارے آئی آئی این ایس سے منسلک ہیں اور ان تمام اداروں کا ایک ہی پتہ ہے جو نئی دہلی بھارت میں ہے۔

کچھ ہی عرصہ قبل آئی آئی این ایس نے یورپی پارلیمان کے 27 ارکان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے کی دعوت دی۔ ان کے اس دورے کو میڈیا میں خاصی کوریج دی گئی اور صحافیوں نے ’’ڈس انفو‘‘ تنظیم کی طرف سے اس متنازعہ دورے کی فنڈنگ اور اس کے منتظمین کے بارے میں اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ا س دورے کا انتظام مالی اور انتظامی لحاظ سے آئی آئی این ایس نے ہی کیا تھا۔

تنظیم ’’ڈس انفو‘‘ کا کہنا ہے کہ اس نے اوپن سورس انٹیلی جنس ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اس نیٹ ورک کے بارے میں تحقیقات جاری رکھیں اور بالآخر اسے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق جنیوا سے ہے جہاں پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر موجود ہے۔ تنظیم نے وہاں ایک اور آن لائن اخبار timesofgeneva.com کا پتہ لگایا جو اس کاروبار میں اپنے 35 سال کا عرصہ مکمل کر چکا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ اخبار بھی اسی قسم کا مواد شائع کرتا ہے جو eptoday.com میں چھپتا ہے اور اس میں ایسی ویڈیو ز بھی شائع کی جاتی ہیں جن میں کشمیر کے تنازعے میں پاکستان کے کردار کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔

تنظیم کے مطابق اس کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ثبوت موجود ہیں کہ ای پی ٹوڈے اور ٹائمز آف جنیوا کے پاکستانی اقلیتوں کیلئے یورپی تنظیم (ای ای پی ایم) اور انسانی حقوق کیلئے پاکستانی خواتین کی تنظیم جیسی غیر سرکاری تنظیموں اور تھنک ٹینکس کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ ادارے کم از کمسال 2010 سے سرگرم ہیں۔ ڈس انفو نے بتایا کہ اس کی مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ آن لائن میڈیا اداروں کے آئی پی ایڈریس، سرور اور ٹویٹر اکاؤنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے دیگر 65 ممالک میں اسی نوعیت کے 265 میڈیا ادارے فعال ہیں جو اسی انداز میں بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف لابی کرنے میں مصروف ہیں۔

ان 265 میڈیا اداروں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کسی ایسے اخبار کا نام استعمال کرتے ہیں جو اب متروک ہو چکا ہے، وہ کے سی این اے اور انٹرفیکس سمیت متعدد بین الاقوامی میڈیا اداروں کی خبریں بار بار نشر کرتا ہے، زیادہ تر خبروں میں بھارت سے متعلق اسی نوعیت کی معلومات شائع کی جاتی ہیں اور زیادہ تر ویب سائٹس کے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ بھی موجود ہیں۔

ڈس انفو کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی اس بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کرے گا جس میں مزید انکشافات کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG