اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے پاکستان کے ٹینس ہیرو اعصام الحق اور معروف پاپ گلوکارہ حدیقہ کیانی کو پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کی مہم کے لیے اپنے خیر سگالی کے سفیروں کے طور پر مقرر کیا ہے ۔
پیر کواسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں عالمی تنظیم کے عہدیداروں نے دونوں شخصیات کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جسے نبھانے کے لیے یہ انفرادی اور اجتماعی طور پر فنڈز اکٹھے کرنے کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں جا کر سیلاب زدگان کی مشکلات اور تکلیف کو اجاگربھی کریں گے۔
یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ توشیرو تناکا نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کے ادارے نے دو پاکستانیوں کو اپنے خیر سگالی کے سفیروں کے طور پر منتخب کیا ہے۔
انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اعصام الحق اور حدیقہ کیانی جو کھیل اور موسیقی کے میدان میں نمایاں خدمات کی وجہ سے پاکستان اور پاکستان سے باہر جانے مانے جاتے ہیں سیلاب زدگان کے لیے وسائل اکٹھے کرنے کی مہم میں بہت مدد دے سکتے ہیں۔
حدیقہ کیانی نے اس موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیلاب زدگان کے لیے اب تک پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر 65 گھر تعمیر کر چکی ہیں اور اب وہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اسی کام کو آگےبڑھائیں گی کیوں کہ ان کے مطابق متاثرین کو سب سے اشد ضرورت چھت ہی کی ہے۔’’جتنے بڑے پیمانے پر آفت آئی ہے اس لحاظ سے 65 گھر کچھ بھی نہیں لیکن اگر ہر ایک اپنا کردار ادا کرے تو قطرہ قطرہ دریا بن سکتا ہے‘‘۔
اعصام الحق ایک میچ کے سلسلے میں ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہیں کر سکے ۔تاہم ان کے والد احتشام الحق نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اعصام نے دسمبر کا پورا مہینہ سیلاب زد گان کی امداد کے کاموں میں صرف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
’’اعصام اپنے کھیل کے سلسلے میں ہر ہفتے ایک نئے ملک میں جاتا ہے اور اگر ہر ملک میں ایک میچ سیلاب زدگان کے لیے کھیلا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم متاثرین کے بہت کام آ سکتی ہے‘‘۔
تقریب میں شریک آفت سے نمٹنے کے قومی ادارے یعنی این ڈی ایم اے کے سربراہ ندیم احمد نے کہا کہ اب تک سیلاب زدگان کے لیے جتنی بھی امداد آئی ہے اس کا 50 فیصد پاکستان کے اندر سے ہی حاصل ہوا ہے جب کہ باقی امداد بیرون ملک سے آئی ہے۔
حدیقہ اور اعصام کو یو این ڈی پی کے سفیرایک ایسے وقت پر مقرر کیا گیا ہے جب امدادی سرگرمیوں میں مصروف مختلف عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جسے اگر پورا نا کیا گیا تو یہ اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔