نصف سے زیادہ ’رمضان‘ گزر چکا ہے۔ لیکن، پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز ہوں یا سرکاری ۔۔سب پر رمضان کی لمبی چوڑی ٹرانسمیشنز نت نئی چمک دمک اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کے لئے دوڑ جاری ہے۔
’سب ہمی کو دیکھیں، ہمی سب کو نظر آئیں‘
ہر چینل کا جذبہ یہ ہے کہ ’سب ہمی کو دیکھیں، ہمی سب کو نظر آئیں‘۔۔اور اس ’موٹو‘ کو پورا کرنے کے لئے دن رات اور نت نئے طریقے ڈھونڈے جارہے ہیں۔اس کام کے لئے پہلے سوشل میڈیا ویب سائٹس سے سرسری فائدہ اٹھایا جارہا تھا۔ لیکن اب ان کا ’دائرہ‘بھی مزید بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک اسے پروموشن اور رابطے کا ہی بڑا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن، اب ’فیس بک‘ مختلف مقابلوں یا کومپیٹیشنز کے لئے بھی استعمال ہونے لگا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال
ایک نجی ٹی وی چینل ’ٹی وی ون‘ نے اپنے رمضان کے خصوصی شو ’روح رمضان‘ میں لوگوں کی شرکت زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے لئے فیس بک پروگرام کے ہوسٹ فیصل قریشی کے پیج پر ایک کمپی ٹیشن شروع کیا ہے جو 16جولائی سے شروع ہو کر اگلے ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔
پبلک ریلیشنز فرم ’پچ میڈیا انک‘ کی عہدیدار زوفرین سہگل نے وائس آف امریکہ کو اس عوامی مقابلے سے متعلق مزید تفصیلات میں کہا کہ ’مقابلہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ لیکن، اس کے فاتح کا نام ہر روز اناؤنس کیا جائے گا اور آخر میں ساتوں جیتنے والے افراد کو پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔‘
ناظرین میں شرکت کا ’جنون‘
دراصل ان پروگرامز میں شرکت کے لئے لوگوں میں جنون سا سوار ہے جس کی ایک اہم وجہ نہایت عام اور چھوٹے موٹے سوالات کے جوابات دینے پر ملنے والے بڑے بڑے انعامات ہیں۔ ان انعامات میں منوں سونا، درجن بھر گاڑیاں، انگنت موٹر سائیکلیں اور بے شمار موبائل فونز کے علاوہ بے حساب دیگر تحائف شامل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض چہرے آپ کو ایک دن ایک چینل پر تو دوسرے دن، دوسرے چینل پر بیٹھے نظر آئیں گے۔
۔۔اور جو لوگ ابھی تک کسی بھی پروگرام میں جانے کا طریقہ تک تلاش نہیں کرسکیں ہیں یا جو پاسز حاصل نہیں کرپائے ہیں ان کے لئے فیس بک پر شروع کئے جانے والے چھوٹے چھوٹے مقابلے دلکشی کا باعث ہیں اور چینلز کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں اپنی ریٹنگ بہتر بنانے کے لئے ’جی آر پیز‘ اور’ ٹی آر پیز‘ بلند سے بلند تر کرنے کاموقع مل جاتا ہے۔ کچھ بڑے چینل ہر روز اپنی جی آر پیز باقاعدہ اخبارات میں نمایاں کرکے شائع بھی کررہے ہیں۔
بڑھ گئے انعام، گر گیا معیار
تمام چمک دھمک اور پیسے کی ریل پیل کے باوجود رمضان شوز تنقید کا بھی شکار ہورہے ہیں۔ بیشتر سنجیدہ ناظرین کاخیال ہے کہ بغیر کچھ کئے ، کرائے ملنے والے ڈھیروں انعامات کے شوق نے پروگرامز کے معیار کو برقرار نہیں رہنے دیا ۔ابتدا میں لوگوں سے واقع معلوماتی اور سنجیدہ سوالات کئے گئے۔ لیکن، عام لاعلمی اور کم علمی دونوں نے اسے برقرار نہیں رہنے دیا۔ اس پر چینلز کو یہ خوف ہوا کہ کہیں عوام آنا ہی نا چھوڑ دے۔ لہذا، ایسے سوالات ترتیب دیئے گئے جنہیں ہر کوئی بوجھ سکتا۔
تاہم، کچھ غیر سنجیدہ لوگوں نے اس پر بھی جوابات اس انداز میں دیئے کہ مذاق بننے لگا۔ مثلاً ماضی میں جب ایک پروگرام کے دوران یہ سوال کیا گیا کہ قائد اعظم کس پیشے سے وابستہ تھے تو کسی نے جواب دیا ’وہ کیبل آپریٹر تھے‘۔ اس سوال کے جواب میں کہ کراچی یونیورسٹی کے موجودہ چانسلر کا نام بتائے تو جواب ملا ’علامہ اقبال‘۔
ایسی درجنوں مثالیں ہیں جس کے بعد آج کے رمضان شوز کا حال یہ ہے کہ کہیں اینکر شرکا کا خاطرخواہ ادب کرتا نظر نہیں آتا تو کہیں سب کے سامنے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پھر سوالات کا معیار بھی اس قدر عامیانہ ہوگیا ہے کہ خدا کی پناہ۔
’اے آر وائی ڈیجیٹل‘ کے رمضان اسپیشل پروگرام ’جیتو پاکستان‘ کے نوجوان ہوسٹ فہد مصطفیٰ بھی اسی نظریئے کے حامی ہیں کہ لوگ ناصرف اپنے منہ سے اپنی پسند کے تحائف مانگتے نہیں شرماتے، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہ ان تحائف کے لئے سب کچھ کرسکتے ہوں۔
خیرات نہیں کرتا، ٹیلنٹ پر گفٹ دیتا ہوں: فہد مصطفیٰ
فہد کہتے ہیں کہ ان کا پروگرام دوسروں سے اس لئے بھی ممتاز ہے کہ اپنے پروگرام میں ’میں خیرات نہیں کرتا، ٹیلنٹ پر گفٹ دیتا ہوں۔ میرے پاس لاتعداد برینڈز ہیں۔ شو میں 350 گفٹ دیئے جاتے ہیں، میں نے شروع کے پروگرام سے لوگوں میں یہ عادت ڈالی ہوئی ہے کہ وہ جواب دے کر انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔ تاکہ، انہیں لگے کہ انہیں مانگنے پر انعام نہیں ملا، بلکہ اس کی قابلیت پر ملا ہے ، اس پر انہیں فخر محسوس ہوتا ہے۔