اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے تین میں سے پہلی ہنگامی فضائی امداد جمعے کو ازبکستان کے قصبے ترمیز پہنچ گئی، بقیہ دو پروازیں بھی اسی ہفتے وہا٘ں پہنچ رہی ہیں۔
جینوا سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لیزا شلائین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ چوں کہ افغانستان کے ہوائی اڈّے ابھی کمرشل پروازوں کے لیے نہیں کھلے ہیں اس لیے ازبکستان کا سرحدی علاقہ ترمیز افغانستان کے لیے امداد کی ترسیل کا ذریعہ رہے گا اور زمینی راستے سے امداد افغانستان روانہ کی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (UNHCR) کے ترجمان بابر بلوچ نے بتایا کہ ان تین طیاروں کے ذریعے ایک سو میٹرک ٹن سے زیادہ سامان بھیجا جا رہا ہے، جس میں عارضی پناہ گاہیں (شیلٹرز)، کمبل، پلاسٹک کی چادریں اور دیگر ایسا سامان شامل ہے جس کی سردیوں میں افغان عوام کو شدید ضرورت ہے۔
انہون نے بتایا کہ یہ سامان ترمیز سے شمالی افغانستان کے شہر مزارِ شریف بھیجا جائے گا اور ملک کے ایک لاکھ 26 ہزار لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً پانچ لاکھ افغان باشندوں کو ایسی امداد کی مزید ضرورت ہے۔
ترجمان بابر بلوچ نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کابل جلد از جلد اس قابل ہو جائے کہ وہ اپنے عوام کی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کر سکے۔ ہماری کوشش ہو گی کی یہ امداد براہ راست کابل پہنچ سکے، تاکہ وہاں سے یہ افغانستان کے مختلف حصوں تک بھیجی جا سکے۔ اس لیے سپلائی کہیں بھی ہو، ہم اسے افغانستان پہنچانے کا ذمہ اٹھائیں گے۔
اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ افغانستان کی آدھی آبادی کو اس وقت امداد کی ضرورت ہے۔ 35 لاکھ سے زیادہ افغان شہری اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں، ان میں سے پانچ لاکھ صرف اس سال بے گھر ہوئے ہیں۔
بابر بلوچ نے بتایا کہ افغانستان کے عوام کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کابل کے مضافات میں لوگ امداد حاصل کرنے کے لیے لمبی لمبی قطاوں میں کھڑے رہتے ہیں۔
بابر بلوچ کا کہنا ہے کہ اس وقت لاکھوں افغان شہریوں کو امداد پہنچانے کے لیے ہمیں تیزی سے کام کرنا ہو گا۔ کیوں کہ سردی شدید ہوتے ہی متعد راستے کٹ جائیں گے اور وہاں پہنچنا بہت دشوار ہو گا۔
بابر بلوچ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ امداد سے محروم افغان شہری سردی میں ٹھٹھر کر ہلاک ہو سکتے ہیں۔