اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے بدھ کے روز افغانستان میں صحت عامہ کی بگڑتی صورت حال پر انتبا ہ کیا ہے۔ اس ملک پر طالبان نے امریکی اور اتحادی فوجیوں کے انخلا کے بعد اگست میں قبضہ کر لیا۔ 20 سال پہلے امریکی قیادت کی افواج نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔
روزانہ کی بریفنگ کے دوران، ترجمان ڈوجیرک نے کہا کہ افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال تک لوگوں کی رسائی میں کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ خسرہ اور اسہال کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس پر قابو پانے کی مہم بھی سست پڑ گئی ہے اور پولیو کے دوبارہ سے نمودار ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بتایا ہے کہ ملک پر طالبان کے قبضے سے قبل ورلڈ بینک کے تعاون سے چلنے والے صحت کے 2300 سے زیادہ مراکز میں سے جن17 فیصد پر مکمل طور پر کام ہو رہا تھا، اب ان پر بھی سے دو تہائی ضروری ادویات ختم ہو چکی ہیں۔
ڈوجیرک نے کہا کہ صحت کا عالمی ادارہ موات میں اضافے کو روکنے کے لیے صحت کی سہولیات کی فراہمی برقرار رکھنے کے لیے عطیات دہندگان کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسیف نے منگل کو وعدہ کیا کہ وہ ایک سو نئی موبائل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ٹیموں کے ساتھ افغانستان میں اپنے کام میں اضافہ کرے گا۔
ڈوجیرک نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے کہا ہے کہ افغانستان بھر میں دائیاں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے ضرورت مند خواتین اور لڑکیوں کی جان بچانے میں مدد مل رہی ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس سال کے اختتام تک ایک کروڑ 10 لاکھ افغان باشندوں کی فوری مدد کے لیے عالمی ادارے نے 60 کروڑ 6 لاکھ ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے، تاکہ بحران میں گھرے لوگوں کی مدد کر کے ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور انہیں موت کے منہ میں جانے سے بچایا جائے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ اس طرح کی اپیل ابھرتے ہوئے انسانی بحران اور جنم لیتی ہوئی تباہیوں سے مقابلے کے لیے کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور میں تعاون سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ اس اپیل کے جواب میں اب تک ساڑھے 13 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں جو اپیل کا 22 فی صد ہیں۔