امریکہ اور طالبان نے افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کو طے پانے والے معاہدے کی رو سے امریکہ اور اس کے اتحادی 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کریں گے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس بات کا سہرا امریکہ کے سر جاتا ہے کہ اس نے افغانستان کی مدد کی کہ وہ امن کی جانب آگے بڑھے۔ انہوں نے یہ بات ہفتے کی شام وائٹ ہاؤس میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔
صدر نے سمجھوتے کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیا اور طالبان کو خبردار کیا کہ یقین دہانیوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
افغان امن مذاکرات اور امریکہ کے حتمی انخلا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ''ہم سمجھتے ہیں کہ آخر کار ہم ہی کامیاب ہوں گے۔''
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم طالبان رہنمائوں سے ذاتی طور پر ملیں گے، جس میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ انھوں نے طالبان گروپ کے لیے کہا کہ وہ ''لڑائی سے بیزار ہو چکے ہیں''۔
انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ طالبان رہنمائوں سے کہاں اور کیوں ملنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس معاہدے پر طالبان نے دستخط کیے وہ اس میں سنجیدہ ہیں۔ تاہم، انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ ناکام ہوتا ہے تو امریکہ پھر سے لڑائی کی جانب جا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر معاملات خراب ہوتے ہیں، تو ہم مکمل فوجی طاقت کے ساتھ واپس آئیں گے۔
امریکہ اور طالبان نے افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔
امریکہ کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد جب کہ طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امن معاہدہ سب کی کامیابی ہے۔
دستخط سے قبل خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ امن کی جانب اہم قدم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اب یہ فریقین کا فرض ہے کہ وہ عدم تشدد پر مبنی پالیسی اپنا کر افغانستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کریں۔
مائیک پومپیو نے مذاکرات کے دوران زلمے خلیل زاد کے کردار کی بھی تعریف کی۔
طالبان رہنما ملا عبدالغنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ 40 سال سے مسائل کا شکار افغانستان کے عوام کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ اُنہوں نے کہا تمام افغان دھڑوں کو مل کر ملک میں اسلامی اقدار کے نفاذ کے لیے کام کرنا ہو گا۔
طالبان رہنما نے امن معاہدے میں معاونت پر پاکستان کا بھی شکریہ ادا کیا۔
تقریب میں پاکستان سمیت مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں نے بھی شرکت کی۔
پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی جب کہ افغانستان کا ایک وفد بھی تقریب میں شریک ہوا۔
معاہدے کے اہم نکات
معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 14 مہینوں میں مکمل ہو گا۔
پہلے مرحلے میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ماہ میں 8600 تک لائی جائے گی۔ اس کے بعد باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں ہو گا۔
امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے۔
اوسلو میں بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان اور امریکہ ایک دوسرے کے قیدیوں کی حتمی فہرست حوالے کریں گے۔
طالبان کے بقول اُن کے 5500 قیدی امریکی قید میں ہیں جب کہ طالبان لگ بھگ ایک ہزار مغویوں کو رہا کریں گے۔ ان قیدیوں کو تین ماہ کے اندر رہا کیا جائے گا۔
انٹرا افغان مذاکرات کے دوران 27 اگست تک امریکہ طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں اٹھائے گا اور اقوام متحدہ بھی طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم کرے گا۔
معاہدے کے تحت طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
امریکہ افغانستان کو تعمیرِ نو اور بین الافغان مذاکرت کے بعد نئے سیاسی نظام کے لیے اقتصادی معاونت جاری رکھے گا لیکن افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
اس دوران کابل میں افغانستان کے صدر اشرف غنی، امریکی وزیر خارجہ مارک ایسپر اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی موجودگی میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ امریکہ، طالبان امن معاہدہ افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ معاہدے میں سہولت دینے والے ملکوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات
طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا دور شروع ہو گا۔ جو کہ مبصرین کے خیال میں زیادہ پیچیدہ ہوگا۔
دوحہ میں موجود مبصرین کے خیال میں افغان عوام، طالبان اور افغان قیادت اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں امن ضروری ہے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کاروں کے خیال میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغان حکومت کی خود مختاری کا احترام کریں اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
اس معاہدے کو ’افغانستان میں امن‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
معاہدہ افغان عوام کے لیے بہترین موقع
معاہدے سے قبل جاری کیے گئے بیان میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امن معاہدہ افغان عوام کے لیے قیام امن کا بہترین موقع ہے۔
صدر نے کہا کہ 19 سال قبل نائن الیون واقعے کے بعد ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے یہ جنگ شروع کی گئی۔ اس دوران ہم نے افغانستان میں مثبت پیش رفت کی۔ لیکن اس کی ہمارے فوجیوں، ٹیکس دہندگان اور افغانستان کے عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔
اُنہوں نے کہا کہ "جب میں صدر بنا تو اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ افغان جنگ ختم کر کے فوجیوں کو واپس بلائیں گے۔ اس وعدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔"
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر اس معاہدے کے بعد افغان حکومت اور طالبان نے اپنے وعدے پورے کیے تو ہم امن کے راستے پر گامزن ہو جائیں گے اور امریکہ اپنی فوج واپس بلا لے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے القاعدہ، دولت اسلامیہ (داعش) اور امن کے لیے خطرہ دیگر دہشت گردوں گروہوں کا قلع قمع اس امن معاہدے کا بنیادی نکتہ ہے۔ البتہ، اپنے مستقبل کا تعین کرنا افغان عوام پر ہی منحصر ہے اور یہ امن معاہدہ اُن کے لیے بہترین موقع ہے۔
امریکی صدر نے افغانستان میں فرائض سرانجام دینے والے امریکی فوجیوں کی خدمات کو سراہا۔ صدر نے کہا کہ "ہم ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔"
طالبان کے ساتھ امن معاہدہ بہت اہم ہے، مائیک پومپیو
امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو بہت اہم قرار دیا۔
تقریب سے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امن کا اشارہ دیے جانے اور القاعدہ سمیت دیگر دہشت گروہوں کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے بعد مذاکرات شروع ہوئے۔
انھوں نے کہا پر تشدد واقعات میں کمی کے ان سات روز کے دوران افغان عوام نے خوش ہوئے اور جشن منایا لیکن ابھی یہ صرف ابتدا ہے کیونکہ پائیدار امن کے لیے افغان قیادت، عوام اور اتحادی افواج کو بہت زیادہ کام کرنا ہے۔
امریکی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ2020 کا افغانستان2001 کے افغانستان سے بہت مختلف ہے اور معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل ہی افغانستان میں پائیدار امن کو یقینی بنائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو پر امن افغانستان کے لیے اپنا تعاون جاری رکھیں۔
امن معاہدہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ملا برادر
افغان طالبان کےرہنما ملا بردار نےتقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ امن معاہدے طالبان جنگجو اور افغان عوام کے لیے یہ مثبت پیش رفت ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغان عوام نے مشکلات برداشت کی ہیں اور اب پائیدار امن کی امید روشن ہے۔
ملا بردار نے کہا کہ طالبان افغان امن معاہدے کی پاسداری کے لیے پر عزم ہیں۔
ملا برادر نے تمام افغان دھڑوں پر زور دیا کہ وہ آزاد افغانستان اور مضبوط اسلامی نظام کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔