رسائی کے لنکس

کائنات کی تخلیق کا تجربہ


کائنات کی تخلیق کا تجربہ
کائنات کی تخلیق کا تجربہ

اکثر سائنس دان کائنات کی تخلیق کے جس نظریے پر متفق ہیں وہ بگ بینگ کہلاتا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق اربوں سال پہلے یہ کائنات ایک بہت بڑا گولے کی شکل میں موجود تھی۔ یہ گولا اپنے بے پناہ اندرونی دباؤ کی قوتوں کے باعث پھٹ کر بکھر گیا اوراس کے بکھرنے سے کہکشائیں اور ان کے نظام شمسی اور دیگر اجرام فلکی وجود میں آئے۔

کائنات کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگرچہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار کا فاصلہ طے کرتی ہے لیکن لامحدود تعداد میں ایسے ستارے موجود ہیں جن کی روشنی ، کائنات کی تخلیق کے اربوں سال گذر جانے کے باوجود بھی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچ پائی۔

کائنات کی تخلیق کا تجربہ
کائنات کی تخلیق کا تجربہ

کائنات کی تخلیق کے عمل کو سمجھنے کے لیے یورپ کے جوہری سائنس کے ادارے سی ای آر این نے چند سال پہلے ایک بڑی تحقیق کا آغاز کیا اور مادے کو توڑنے کے لیے جنیوا کے قریب دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ قائم کی۔ جسے لارج ہیڈرون کولائیڈر(Large Hadron Collider)کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کے 20 ممالک رکن ہیں اور اس سے دنیا بھر کے 80 ممالک کی 588یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے وابستہ ہیں ، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

لارج ہیڈرون کولائیڈر، فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع 27 کلومیٹر لمبی ایک طول سرنگ ہے جس کا قطر 175 میٹر تک ہے۔ اس لیبارٹری کا قیام طبعیات کے بنیادی سوالات اور کائنات کے وجود میں آنے کے اصول کا پتا لگانا تھا۔

اس لیبارٹری میں، جس کا آغاز 2008ء میں ہواتھا ، حال ہی میں ہائی اسپیڈ جوہری ذرات کی ایک بیم کو ٹکرا کرایک نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ جس سے انہیں معلوم ہوا کہ کائنات کی تخلیق کے فوراً بعد مائع کی شکل میں توانائی وجود میں آئی ، جس کا درجہ حرارت 100کھرب ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

تجربہ گاہ کے نتائج کے مطابق یہ توانائی گاڑھے سیال کی طرح تھی۔جس نے ایٹم کے مرکزی حصے کے نیوٹران اور پروٹان اور ان کے گرد گھومنے والے الیکٹرانوں کی تخلیق کے لیے ایک حقیقی ماحول فراہم کیا، جس نے بعد میں ستاروں اور کہکشاؤں کی شکل اختیارکی۔

اس تجربے کے نتائج سے کائنات کی تخلیق کے اس مقبول نظریے کو سمجھنے میں مددملی کہ بگ بینگ کے بعد انتہائی گرم گیسوں نے باہم مل کر مادے کو جنم دیا تھا، جس سے اجرام فلکی وجود میں آئے۔

برمنگھم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ ایوانز کا، جنہوں نےاس تجربے کی قیادت کی تھی، کہنا ہے کہ یہ کائنات کا سب سے اولین لمحہ تھا اور اس کی شکل اور اس کی شکل ایک انتہائی گاڑھے مائع کی تھی۔

ڈاکٹر ایوانز کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے اس تجربے کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا مزید تجزیہ اور جانچ پرکھ کرنی ہے اور اس عمل کو سمجھنے کے لیے مزید غور وخوض کرناہے۔ تاہم یہ نتائج انتہائی حیران کن ہیں۔

مسلسل دوہفتوں تک جاری رہنے والے اس تجرباتی عمل میں کئی ملکوں کے تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زیادہ سائنس دانوں نے حصہ لیا ۔

اس تجربے میں انہوں نے ایٹم کو توڑنے کے لیے انتہائی تیز رفتارذرات سے کام لیا اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا جو کائنات کے تخلیقی دھماکے ’’بگ بینگ‘‘ کے وقت تھا۔گویا لبیارٹری کے اندر ایک ’’چھوٹا بگ بینگ‘‘ کیا گیا۔

ننھے جوہری ذرات کی رفتار بڑھانے کے لیے انہیں 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں زیر گردش رکھا گیا ۔ حتیٰ کہ انہوں نے ننھےننھے آگ کے گولوں کی شکل اختیار کرلی اور جب انہیں 300 فٹ موٹی البائن کی تہہ میں جذب کیا گیا تو اس وقت ان کا درجہ حر ارت 100 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکاتھا۔

یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ایٹم اور اس کے اندر موجود پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے اور وہ ایک گاڑھے سیال میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس انتہائی بلند درجہ حرارت سیال کو مربوط رکھنے والی قوت نمایاں طور پر کمزور پڑ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ گیسوں کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔

پانچ سال قبل نیویارک کی اپٹن تجربہ گاہ میں کیے جانے والے ایک ایسے ہی تجربے میں 40 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت پیدا کیا گیاتھا جس پر توانائی نے سیال شکل اختیار کر لی تھی۔تاہم اس وقت خیال یہ تھا کہ جیسے جیسے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا، سیال گیسوں جیسا بن جائے گا۔

تاہم تازہ ترین تجربہ ایک مختلف نتیجہ سامنے لایا ہے۔ڈاکٹر ایوانز کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ اس بلندترین درجہ حرارت پر بھی سیال کو مربوط رکھنے کی قوت برقرار رہی ۔ بک بینگ کے فوراً بعد ہوا یہ تھا کہ یہ گاڑھا سیال گیسوں کے سے انداز آزادانہ کائنات میں بکھر گیا تھا۔

ڈاکٹر ایوانز کہتے ہیں کہ یہ تجربہ کائنات کے ابتدائی عرصے میں مختلف ایٹم، ان کے اندر پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران بننے کے عمل کا راز جاننے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG