آسٹریا میں ہنگری کی سرحد کے نزدیک کھڑے ایک ٹرک سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی درجنوں لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
آسٹریا کے سرحدی صوبے برگن لینڈ کے پولیس سربراہ ہینس پیٹر ڈوسکوزل کے مطابق مذکورہ ٹرک پونڈروف نامی قصبے کے نزدیک ایک مرکزی شاہراہ کے کنارے کھڑا تھا جسے پولیس نے جمعرات کو دریافت کیا۔
ڈوسکوزل نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ جس وقت پولیس ٹرک تک پہنچی اس میں موجود لاشیں گلنا شروع ہوگئی تھیں ۔
انہوں نے کہا کہ ٹرک میں 20 سے 50 لاشیں موجود تھیں لیکن ان کی خراب حالت کےباعث تعداد کا درست تعین فوری طور پر ممکن نہیں۔
حکام نے ابتدائی تحقیقات کے بعد امکان ظاہر کیا ہے کہ ٹرک کے پچھلےحصے میں موجود افراد دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
ٹرک سے لاشوں کی برآمدگی کے بعد ہنگری اور آسٹریا دونوں ملکوں کے حکام نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرک پر ہنگری کی نمبر پلیٹ نصب ہے۔
آسٹریا کے وزیرِ داخلہ جوہان مکل لیٹنر نے واقعے کو " ایک سیاہ دن" قرار دیتے ہوئے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی یورپی ملکوں میں تقسیم کا طریقۂ کار وضع کرے تاکہ انہیں انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھنے سے بچایا جاسکے۔
جمعرات کو ویانا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ان کجی حکومت یورپی حکام سے پہلے سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ تارکینِ وطن کے سیلاب سے نبرد آزما ہونے کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کے بعد آسٹریا نے اپنے سرحدی علاقوں اور دوسرے ملکوں سے آنے والی ٹرینوں کی نگرانی سخت کردی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں جاری خانہ جنگی کے باعث فرار ہونے والے ہزاروں افراد پناہ کی تلاش میں رواں سال غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچے ہیں جن کی آباد کاری یورپی ملکوں کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
پناہ گزینوں کے اس بحران کا سب سے زیادہ سامنا یورپی یونین کے رکن ملکوں اٹلی اور یونان اور بلقان کے ممالک سربیا اور میسی ڈونیا کو کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے یہ بوجھ اکیلے اٹھانے سے معذرت کرتے ہوئے یورپی یونین سے مدد اور پناہ گزینوں کو رکن ملکوں میں وسائل کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم عبور کرکے یا دشوار گزار زمینی راستوں کے ذریعے کسی یورپی ملک میں داخل ہوجانے میں کامیابی کے بعد ان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بلقان کے راستے شمالی یورپ پہنچنے کی کوشش کرتی ہے جس کے باعث ان کے راستے میں پڑنے والے ملکوں نے سرحدوں پر حفاظتی انتظامات سخت کردیے ہیں۔
بلقان –خصوصاً سربیا اور میسی ڈونیا کے راستے یورپ میں داخلے کی کوشش کرنے والے ہزاروں پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکنے کے لیے ہنگری نے رواں ہفتے اپنی جنوبی سرحد پر فوجی دستے، ہیلی کاپٹر اور تربیت یافتہ کتوں کےیونٹ تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے میسی ڈونیا کی حکومت نے بھی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کےپیشِ نظر ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی تھی۔
یورپی یونین کے رکن ملک یونان سے روزانہ لگ بھگ تین ہزار پناہ گزین میسی ڈونیا پہنچ رہے ہیں جن سے نبٹنے کے لیے مقامی حکومت نے یورپی یونین سے مدد مانگی ہے۔
پناہ گزینوں کے بحران پر غور کے لیے جمعرات کو مغربی بلقان کے ملکوں کا ایک سربراہی اجلاس ویانا میں ہورہا ہے جس میں جرمنی کی چانسلر اینگلا مرخیل سمیت خطے کے ملکوں اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام شریک ہیں۔
یورپی حکام کا کہناہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ کو اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جمعرات کو اجلاس سے قبل ویانا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن چا نسلر نے آسٹریا میں ٹرک سے لاشوں کی برآمدگی کو حالات کی سنگینی کا ایک اشارہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ حالات کےپیشِ نظر یورپ کو فوری طور پر اس مسئلے کا حل سوچنا ہوگا اور اس پر اجتماعی عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔