رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: کیا ایران کے پاس بم موجود ہے؟


Iran, nuclear
Iran, nuclear

اس ضمن میں، ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ایک تجزئہ کار ایک اور سوال یہ اٹھاتے ہیں، آیا شمالی کوریا نے اس ماہ جس بم کا تجربہ کیا تھا وُہ کہیں ایران کا بم تو نہ تھا، یا پھر دونوں ملکوں کا مشترکہ بم تو نہیں تھا ؟

کیا ایران کےپاس پہلے سے بم موجود ہے؟ اِس سوالیہ عنوان سے ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ایک تجزئےمیں ایک اور سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا نے اس ماہ جس بم کا تجربہ کیا تھا وُہ کہیں ایران کا بم تو نہ تھا یا پھر دونوں ملکوں کا مشترکہ بم تو نہیں تھا؟

اخبار کہتا ہے کہ نئے امریکی وزیر خارجہ جان کئیری کے دورہٴ وسط مشرق میں ایک پریشان کُن امر ایران کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کا امکان ہوگا، اوریہ صورت بدل جائے گی جب صدر اوبامہ اگلے ماہ اسرائیل کے دور ے پر پہنچیں گے اور زیر بحث موضوعات میں یہی سرفہرست ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر ایران نے بم بنا لیا ہے تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ وُہ اسےکم ازکم فی الحال پردہٴ راز میں رکھنا چاہے گا۔

اخبار کے مطابق، ایران کے پاس بم کی موجودگی کا قیاس بیشتر حالات کی بنیاد پرلگایا گیا ہے۔ ظاہر ہے ایران کے لئے اپنی سرزمین پر جوہری تجربہ کرنا حماقت کی بات ہوگی۔ البتہ، شمالی کوریا نے جب اپنا تیسر ا جوہری تجربہ کیاتواس وقت وہاں ممتاز ایرانی جوہری سائینس دان محسن فخری زادہ مہا آبادی موجود تھے، جس پرتعجّب نہیں ہونا چاہئیے۔ کیونکہ، ایران اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری اور مزائیلو ں کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون رہا ہے، بلکہ ایران کے بلسٹک مزائیل شمالی کوریا کے ڈیزائنوں پر بنائے گئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی سائینس دانوں اور انجنیئروں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

ایک اور اہم امر جس کی طرف اس تجزئے میں توجّہ دلائی گئی ہے یہ ہے کہ شمالی کوریا کے پہلے دو بموں میں پلوٹونیم کا استعمال ہوا تھا، جب کہ تیسرے بم کے بعد ماحولیات کے معائنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس میں افزودہ یُورینیم استعمال کیا گیا تھا، یعنی جوہری بم کی بالکل وُہی قسم جس پر ایران کام کرتا آیا ہے۔ اسی لئے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آیا یہ تیسرا بم شمالی کوریا کا اپنا تھا یا ایران کا تھا ، یا پھر دونوں کا مشترکہ بم تھا۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدہ دار نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا تھاکہ ایران کے لئے اپنی سرزمین پر بم پھوڑنا بیوقوفی کی بات ہوگی، کیونکہ جوہری بم چوری چھپے نہیں چلائے جا سکتے۔ لہٰذا، خیریت اسی میں ہو سکتی ہے کہ ایسے تجربے کسی اور ملک میں کئے جائیں اور جب یہ تسلّی ہو جائے کہ یہ ڈیزائن کامیاب ہے تو خاموشی کے ساتھ کافی سارے بم تیار کئے جایئں۔

اخبار کہتا ہے کہ ایران جب کافی سارے بم بھی بنا لے تو اس کو یہ اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے پاس بم ہیں۔ اسرائیل کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ اُس ملک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کےبارے میں ابہام سے کام لیا ہے۔ حالانکہ، باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کےپاس 100 یا 200 جوہری بم ہیں، اور ایران بھی یہی کُچھ کر سکتا ہے۔

ایران کے اعلیٰ مذہبی پیشوا آئت الّلہ خامنئی کے اس تازہ بیان پر کہ ایران بم نہیں بنانا چاہتا، لیکن کوئی اُسے بنانے سے روک بھی نہیں سکتا۔ اخبار کہتا ہے کہ اس میں شائد امریکہ کے لئے یہ سفارتی اشارہ ہے کہ شمالی کوریا کی مدد سے اب یہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ ہے کہ امریکہ میں اگلے تین عشروں کے دوران قدرتی گیس کی پیداوار میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگا اور نئی تحقیق سے یہ زبردست شواہد سامنے آئے ہیں کہ امریکہ میں توانائی کی یہ فراوانی کئی دہائیوں تک جاری رہے گی۔

تخمینوں اور اندازوں سے قطع نظر، گیس کے کُنوؤں کی اصل پیداوار کے اعدادوشمار سے دسمبر میں توانائی کی صنعت اور حکومت کی اس پیشگوئی کی تصدیق ہوتی ہے کہ گیس کی پیداور میں متواتر اضافہ ہوتا جائے گا۔امیریکن پٹرولیم انسٹی چُیوٹ کے ایک بیان کے مطابق جائزوں سے تصدیق ہو چُکی ہے کہ امریکہ میں اس وافر مقدار میں گیس کے ذخائر موجود ہیں کہ اُن سے نہ صرف ملک کی ضروریات پُوری ہونگی ، بلکہ قدرتی گیس برآمد بھی کی جا سکے گی۔

اسی اخبار میں رواں مالی سال کے لئے ہندوستان کے وفاقی بجٹ کے تجزئے میں کہا گیا ہے کہ 166 کھرب روپوں کے اس بجٹ میں وزیر خزانہ پی چدمبرم نے حکومت کی اصلاحات بروئے کار لاتےہوئے اقتصادی نمُو کی شرح دوبارہ آٹھ فی صد تک پُہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مبصرین کے نزدیک ایک ایسے ملک میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لئے یہ ضروری ہےجہاں ہر سال سوا کروڑ سے زیادہ افرا د کام کرنے کی عُمر کو پہنچ جاتے ہیں۔

بھارت کی متعدد ریاستوں میں رواں سال کےدوران انتخابات ہونے والے ہیں جب کہ وفاقی انتخابات بھی اگلے سال مئی تک ہونے والے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت کا یہ شائد آخری بجٹ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG