دنیا کی قومیں اپنی تہذیب وثقافت اور زبان کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں، اس میں زبان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ہر زبان کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، جس میں ایک طویل ارتقائی عمل جاری رہتا ہے۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ دراصل اردو ترکی لفظ ہے جس کے معنی' لشکر' کے ہیں اور یہ برصغیر میں پیدا ہوئی، اس زبان میں تقریباً 40 فیصدسے زائد عربی اورفارسی کے الفاظ موجود ہیں۔
شیفیلڈ اس لحاظ سے ایک اہم شہر ہےکہ یہاں اردو کے رواج اورفروغ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اس میں ا شہر کی انتظامیہ کا بڑا اہم کردار ہے۔شہر کے ہسپتال،لائبریری ،اور اسکولوں کے باہر لگے سائن بورڈ پر انگریزی کے ساتھ اردو ترجمہ موجودہوتا ہے تا ہم یہ بات قابل ستائش ہےکہ لائبریری کے اندر اردو میں بات کرنے کی سہولت کے علاوہ اردو کتب کا کافی بڑاذخیرہ اورمخصوص حصہ کتب بینی کے لیے بھی موجود ہے۔
اسپتالوں میں اپنے مریضوں کی سہولت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اس ضمن میں ہماری ملاقات ' 'پیج ہال کلینک 'کی آ فس انچارج مس صوفیہ سے ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہسپتال میں جو مریض آتے ہیں ان کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے اور جن میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد ذیادہ ہے ، ہم انھیں ڈاکٹر سےاپنی زبان میں بات کرنے کے لیےمترجم مہیا کرتے ہیں ۔
شیفیلڈ میں مقیم تارکین وطن پاکستانی جو یہاں کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہے 60 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوئی اورآج ان کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، ۔یہاں پاکستان سے آئے ہوئے زیادہ تر لوگوں کا تعلق پنجاب اور کشمیر سے ہے۔
شیفیلڈ میں ' جامعیہ اسلامیہ اردو ٹیچنگ سینٹر ' کے نام سے ایک ادارہ قائم ہےجو ۱1990 میں قائم ہوا،اس ادارہ کی بنیاد قاری محمد علی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ شمیم علی نے رکھی، جن کا تعلق پنجاب سے ہے،ان کی فیملی میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جو اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ مسز شمیم علی پاکستان میں ٹیچر کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں ۔اس کے علاوہ وہ یہاں مقامی ریڈیو اور ٹی وی کے معلوماتی پروگراموں میں باقاعدگی سی شرکت کرتی ہیں۔ اردو سینٹر کی ضرورت پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اس بات کو محسوس کر رہی تھی کہ اس شہر میں خاص کر پاکستانی خواتین کو اپنے روز مرہ معاملات کی انجام دہی میں زبان کی وجہ سے کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو یہ انگریزی زبان سے نا آشنا ہیں تو دوسری طرف اردو زبان بھی نہیں بول سکتی ،شیفیلڈ سٹی انتظامیہ کے تعاون سے یہاں ہربڑے ادارےمیں مترجم کی سہولت موجودہے ، لہذا اس مسئلے کے حل کے لیے میں نے اپنی کوشیشوں کا آغاز کیا، آج اس ادارے کو چلاتے ہوئے 22 سال ہو گئے ہیں اب وہ مائیں جو مجھ سے اردو پڑھتی رہی ہیں ،اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کے لیے بہت شوق سے بھجتی ہیں۔
شمیم علی نے مزید کہا کہ ہماری ماؤں کو اس بات کا شعور نہیں کہ زیادہ سے ذیادہ زبانیں سیکھنا ان کےبچوں کے روشن مستقبل کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے ۔
قوموں کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان کو فراموش کر دیا جاتا ہے،چناچہ ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل کو اپنے اس عظیم ورثے کا علمبردار بنا کر جینا سکھائیں۔
محترمہ شمیم علی کی سب سے بڑی صاحبزادی سحر علی شیفیلڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹری کے آخری سال میں ہیں،بہتریں مقرراہ ہیں اور کئی تقریری مقابلوں میں شیفیلڈ یونیورسٹی کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔'جی سی ایس ای' اردو زبان کے ساتھ پاس کیا اور اپنی والدہ کے ساتھ اردو ٹیچنگ سینٹر میں پڑھاتی ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہو نے والی سحر علی،ان کی بہنیں صدیقہ علی ،مناہل علی اور عطیہ علی، جبکہ بھائی محمد سعد علی اور محمداسعد علی سب ہی اردو پڑھنا اور لکھنا جانتے ہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین آپس میں اپنی علاقائی زبان میں بات کرتے ہیں مگر ہم بچوں سے ہمیشہ اردو میں بات کرتے ہیں۔
سحر کا کہنا تھا کہ ہم انگریزی زبان کی اہمیت سے بہت اچھی طرح آگاہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہےتاہم جب بھی کسی زبان کو سیکھنے کا موقع ملے تواسے ضرور سیکھنا چاہیےاورجب اختیاری مضامین میں اردو زبان شامل ہواور انتخاب کا حق حاصل ہو تو وہ انتخاب اردو ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ دراصل اردو ترکی لفظ ہے جس کے معنی' لشکر' کے ہیں اور یہ برصغیر میں پیدا ہوئی، اس زبان میں تقریباً 40 فیصدسے زائد عربی اورفارسی کے الفاظ موجود ہیں۔
شیفیلڈ اس لحاظ سے ایک اہم شہر ہےکہ یہاں اردو کے رواج اورفروغ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اس میں ا شہر کی انتظامیہ کا بڑا اہم کردار ہے۔شہر کے ہسپتال،لائبریری ،اور اسکولوں کے باہر لگے سائن بورڈ پر انگریزی کے ساتھ اردو ترجمہ موجودہوتا ہے تا ہم یہ بات قابل ستائش ہےکہ لائبریری کے اندر اردو میں بات کرنے کی سہولت کے علاوہ اردو کتب کا کافی بڑاذخیرہ اورمخصوص حصہ کتب بینی کے لیے بھی موجود ہے۔
اسپتالوں میں اپنے مریضوں کی سہولت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اس ضمن میں ہماری ملاقات ' 'پیج ہال کلینک 'کی آ فس انچارج مس صوفیہ سے ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہسپتال میں جو مریض آتے ہیں ان کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے اور جن میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد ذیادہ ہے ، ہم انھیں ڈاکٹر سےاپنی زبان میں بات کرنے کے لیےمترجم مہیا کرتے ہیں ۔
شیفیلڈ میں مقیم تارکین وطن پاکستانی جو یہاں کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہے 60 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوئی اورآج ان کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، ۔یہاں پاکستان سے آئے ہوئے زیادہ تر لوگوں کا تعلق پنجاب اور کشمیر سے ہے۔
شیفیلڈ میں ' جامعیہ اسلامیہ اردو ٹیچنگ سینٹر ' کے نام سے ایک ادارہ قائم ہےجو ۱1990 میں قائم ہوا،اس ادارہ کی بنیاد قاری محمد علی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ شمیم علی نے رکھی، جن کا تعلق پنجاب سے ہے،ان کی فیملی میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جو اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ مسز شمیم علی پاکستان میں ٹیچر کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں ۔اس کے علاوہ وہ یہاں مقامی ریڈیو اور ٹی وی کے معلوماتی پروگراموں میں باقاعدگی سی شرکت کرتی ہیں۔ اردو سینٹر کی ضرورت پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اس بات کو محسوس کر رہی تھی کہ اس شہر میں خاص کر پاکستانی خواتین کو اپنے روز مرہ معاملات کی انجام دہی میں زبان کی وجہ سے کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو یہ انگریزی زبان سے نا آشنا ہیں تو دوسری طرف اردو زبان بھی نہیں بول سکتی ،شیفیلڈ سٹی انتظامیہ کے تعاون سے یہاں ہربڑے ادارےمیں مترجم کی سہولت موجودہے ، لہذا اس مسئلے کے حل کے لیے میں نے اپنی کوشیشوں کا آغاز کیا، آج اس ادارے کو چلاتے ہوئے 22 سال ہو گئے ہیں اب وہ مائیں جو مجھ سے اردو پڑھتی رہی ہیں ،اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کے لیے بہت شوق سے بھجتی ہیں۔
شمیم علی نے مزید کہا کہ ہماری ماؤں کو اس بات کا شعور نہیں کہ زیادہ سے ذیادہ زبانیں سیکھنا ان کےبچوں کے روشن مستقبل کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے ۔
قوموں کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان کو فراموش کر دیا جاتا ہے،چناچہ ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل کو اپنے اس عظیم ورثے کا علمبردار بنا کر جینا سکھائیں۔
محترمہ شمیم علی کی سب سے بڑی صاحبزادی سحر علی شیفیلڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹری کے آخری سال میں ہیں،بہتریں مقرراہ ہیں اور کئی تقریری مقابلوں میں شیفیلڈ یونیورسٹی کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔'جی سی ایس ای' اردو زبان کے ساتھ پاس کیا اور اپنی والدہ کے ساتھ اردو ٹیچنگ سینٹر میں پڑھاتی ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہو نے والی سحر علی،ان کی بہنیں صدیقہ علی ،مناہل علی اور عطیہ علی، جبکہ بھائی محمد سعد علی اور محمداسعد علی سب ہی اردو پڑھنا اور لکھنا جانتے ہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین آپس میں اپنی علاقائی زبان میں بات کرتے ہیں مگر ہم بچوں سے ہمیشہ اردو میں بات کرتے ہیں۔
سحر کا کہنا تھا کہ ہم انگریزی زبان کی اہمیت سے بہت اچھی طرح آگاہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہےتاہم جب بھی کسی زبان کو سیکھنے کا موقع ملے تواسے ضرور سیکھنا چاہیےاورجب اختیاری مضامین میں اردو زبان شامل ہواور انتخاب کا حق حاصل ہو تو وہ انتخاب اردو ہی کیوں نہ ہو۔