ایک امریکی جج نے ایک سخت گیر عالم دین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے، جس سے آٹھ ماہ قبل، وفاق کی طرف سے دہشت گردی کے الزام پر اُنھیں سزا ہو چکی ہے۔
نیویارک سٹی میں جمعے کے روز ہونے والی پیشی میں ایک وفاقی عدالت کے جج نے مصطفیٰ کامل مصطفیٰ کو سزا سنائی، جنھیں عام طور پر ابو حمزہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حمزہ، جو ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہیں، جب کہ اُن کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں، سزا سنائے جانے کے وقت عدالت میں موجود تھے۔
اُن کے وکلا نے جج پر زور دیا تھا کہ سزا سناتے ہوئے، وہ اُن کی جسمانی کمی کو مدِ نظر رکھیں۔
گذشتہ مئی میں، دہشت گردوں کو مادی حمایت فراہم کرنے پر، حمزہ کو سارے 11 کے 11 الزامات میں قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔
اِن الزامات میں، جہادی تربیتی کیمپ قائم کرنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو امریکہ بھیجنا، افغانستان میں القاعدہ کی مدد کے لیے افراد روانہ کرنا اور یمن کے شدت پسندوں کو ایک سیٹلائٹ فون فراہم کرنا شامل تھا، جنھوں نے سنہ 1998میں مغربی سیاحوں کو اغوا کیا تھا۔
بچاؤ کی کوشش کے دوران، اِن میں سے چار یرغمالی ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں، معاون اٹارنی جنرل، جان کارلن نے حمزہ کو ایک ایسا شخص قرار دیا ہے جو ’بغیر نادم ہوئے، ہر طرح کی دہشت گردی کے لیے تیار‘ رہتا ہو۔
سنہ 2012 میں امریکہ کی حوالگی سے قبل، حمزہ برطانیہ میں رہتا تھا، جہاں وہ لندن میں فِنسبری پارک مسجد میں خطبوں کے دوران آگ بھڑکانے والی مغرب مخالف بیان بازی کیا کرتا تھا۔
ملک بدری سے قبل، وہ برطانیہ میں سات برس کی قید کاٹ چکا ہے۔اُن کے خلاف نفرت پھیلانے اور نوجوانوں کو کافروں کے خلاف اسلحہ اٹھانے پر اکسانے کے الزام ثابت ہوئے تھے۔