صدر براک اوباما کی جانب سے وسیع اختیارات ملنے کے بعد، افغانستان میں امریکی فوج نے طالبان کے خلاف جمعے کے روز اپنی پہلی فضائی کارروائی کا آغاز کیا، جس کے تحت امریکی فوجیں باغیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہیں۔
پینٹاگان کے پریس سکریٹری پیٹر کوک نے جمعے کے روز اِس بات کی تصدیق کی کہ یہ فضائی کارروائی نئے اختیارات کے مطابق ’’افغانستان کے جنوبی حصے میں‘‘ کی گئی۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’’نشانے ٹھیک ٹھیک اہداف پر لگے‘‘۔ تاہم، مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔
کوک نے کہا کہ گولہ باری کے اہداف کا حکمت عملی کا باعث اثر ہوگا، جو افغان افواج کی صلاحیت بڑھانے کا سبب بنے گا۔
اس سے قبل، اِسی ماہ اوباما نے اس جنگ زدہ ملک میں درکار امریکی فوجی اقدام کی اجازت دی، تاکہ طالبان کے خلاف مزید فضائی کارروائی کی جاسکے، جس کی مدد سے افغان مشن کامیاب رہے۔
اس سے قبل، امریکی کمانڈروں کو اختیار دیا گیا تھا کہ صرف زمین پر موجود امریکی افواج کے تحفظ کے لیے فضائی کارروائی کی جاسکتی ہے، جب اُنھیں طالبان کے حملے کا خطرہ ہو یا پھر وہ داعش یا القاعدہ کی باقیات سے نبردآزما ہو رہی ہوں۔
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے 10 جون کو ’ڈفنس ون ٹیک سَمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے اختیارات کے تحت فوج کو اجازت ہوگی کہ افواج کا ’’بہتر استعمال کر سکیں‘‘۔
افغانستان میں 9800 امریکی فوج موجود ہے۔ اوباما انتظامیہ کی پالیسی کے مطابق، اس سال کے اواخر تک یہ تعداد کم ہو کر 5500 رہ جائے گی۔
سنہ 2014 میں غیر ملکی فوجوں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، افغان فوج نے طالبان کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہے۔