رسائی کے لنکس

امریکہ اور افغان جنگ کے دس سال


امریکہ اور افغان جنگ کے دس سال
امریکہ اور افغان جنگ کے دس سال

اس ہفتے افغانستان کی جنگ کے آغاز کی دسویں برسی ہے ۔ یہ جنگ گیارہ ستمبر 2011 کو امریکہ پر دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے شروع کی گئی تھی ۔ صدر اوباما کو یہ جنگ جو امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے، ورثےمیں ملی تھی ۔

افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے دس برس بعد، وہ شخص جو گیارہ ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار تھا، ہلاک ہو چکا ہے ۔ اسامہ بن لادن کو امریکہ کی اسپیشل فورسز نے اس سال کے شروع میں پاکستان میں ہلاک کر دیا۔ لیکن جنگ اب بھی جاری ہے ۔ اب تک اس میں ایک ہزار آٹھ سو امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کا ارادہ یہی ہے کہ 2014 تک افغانستان میں سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو منتقل کر دی جائیں۔

گذشتہ جون میں، صدر اوباما نے 33,000 فوجیوں کی واپسی شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ وہ اضافی فوج ہے جو انھوں نے 2009 میں وہاں بھیجی تھی۔ ’’ہم ان فوجیوں کو ذمہ دارانہ انداز سے واپس لائیں گے جس سے افغانستان کو خود اپنا دفاع کرنے کا موقع ملے گا اور ہمیں ایسی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت حاصل ہوگی جس کے ذریعے ہم القاعدہ پر اس وقت تک دباؤ ڈال سکیں گے جب تک اس نیٹ ورک کو مکمل طور پر شکست نہیں دی جاتی۔‘‘

دس برس پہلے امریکیوں نے افغانستان میں فوجی کارروائی کی زبردست حمایت کی تھی۔ لیکن وہ عراق کی جنگ بھی دیکھ چکے ہیں جس میں تقریباً 4,500 امریکیوں کی جانیں گئی ہیں۔

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ افغانستان میں ہمارے مقاصد کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، وہ وہاں سے ہمارے جلد نکل آنے کے بھی حامی ہیں۔ سی بی ایس نیوز کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکیوں کی نصف تعداد کا خیال ہے کہ افغانستان میں جنگ میں ہم کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

پیٹر براؤن ریاست کنکٹیکٹ کے Quinnipiac University Polling Institute میں پولسٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ظاہر ہے کہ ملک جنگ سے تھک چکا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک پارٹی کی بات نہیں ہے ۔ روایتی طور پر ریپبکینز اس قسم کی جنگوں کے زیادہ حامی ہوتے ہیں، لیکن ان کی حمایت میں بھی کمی آ رہی ہے۔‘‘

آنسر کوالیشن نامی تنظیم واشنگٹن ڈی سی اور دوسرے شہروں میں افغانستان کی جنگ کی دسویں برسی کے موقع پر مظاہرے کرے گی ۔ اس تنظیم کے کو آرڈینیٹر برائین بیکر کہتے ہیں’’اس جنگ میں صرف افغان اور امریکی فوجیوں کا خون ہی نہیں بہہ رہا ہے بلکہ اس سے ملک اقتصادی طور پر بھی تباہ ہو رہا ہے جب کہ ہمیں پہلے ہی بجٹ میں بھاری کمی کرنی پڑ رہی ہے اور عوامی بھلائی کے پروگرام بند کیے جا رہے ہیں۔‘‘

صدر اوباما کو خود ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان، جیسے ریاست ورمونٹ کے سینیٹر Patrick Leahy کی طرف سے اس قسم کے مطالبات کا سامنا ہے کہ افغانستان کی مجموعی اسٹریٹجی پر نظرِ ثانی کی جائے ۔’’میرا خیال ہے کہ ہمیں افغانستان میں ان اہداف کی نشاندہی کرنی چاہئیے جن کا حصول ممکن ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ ہمیں وہاں اپنی فوجوں کی تعداد میں کمی کرنی چاہئِے۔‘‘

ڈیموکریٹک سینیٹر جِم ویب نے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا اور سبکدوش ہونے والے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر میں ایڈمرل مائیکل ملن سے کہا’’اگر ہم بلکہ آپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہم صبر کے ساتھ آپ کو ایک طویل جنگ لڑتے دیکھتے رہیں، تو یہ بات اور بھی زیادہ اہم ہو گی کہ یہ بات وضاحت سے بتائی جائے کہ افغانستان میں ہماری موجودہ کارروائیوں سے ہمارے قومی مفاد کا کیا تعلق ہے۔‘‘

ریپبلیکن صدارتی امیدواروں کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما کی فوجیں کم کرنے کی حکمت عملی کا تعلق سیاست سے ہے۔ لیکن مٹ رومنی اور دوسرے لوگ یہ بات مانتے ہیں کہ افغانوں کو اپنی سیکورٹی کی ذمہ داری خود اٹھانی چاہیئے ۔’’انہیں اپنی آزادی کے لیے خود قربانی دینی ہوگی اور اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘

بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے مائیکل او ہینلون کہتے ہیں کہ امریکیوں کو یہ بات یاد ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے لحاظ سے ، مسٹر اوباما نے درمیانی راہ اختیار کی ہے۔’’امریکیوں میں عام سمجھ بوجھ کا عنصر بھی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سوچیں کہ وہ جنگ پسند نہیں کرتے، لیکن وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری کے ساتھ بتدریج فوجیں واپس بلانا اہم ہے ۔‘‘

پاکستان میں امریکی فورسز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ صدر اوباما نے امریکیوں سے کہا کہ جنگ کا زور ٹوٹ رہا ہے ۔ لیکن گذشتہ ہفتے، کانگریس کے سامنے ایک رپورٹ میں انھوں نے کہا کہ ابھی شدید مشکلات باقی ہیں۔ یہ جنگ ختم کرنے کی ابتدا ہے، اختتام نہیں ۔2001 سے اب تک افغانستان کی جنگ پر 400 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے ۔

XS
SM
MD
LG