رسائی کے لنکس

بچے کی بازیابی کے بعد امریکی ریاست میں خوشی


الاباما کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ایک ہفتے تک افسردگی اور کشیدگی کے بعد فضا خوشگوار ہے کیونکہ اسکول بس سے اغوا ہونے والا بچہ ایتھن بازیابی کے بعد بدھ کو اپنی چھٹی سالگرہ منانے جا رہا ہے۔

امریکی ریاست الاباما کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ایک ہفتے تک افسردگی اور کشیدگی کے بعد فضا خوشگوار ہے کیونکہ اسکول بس سے اغواء ہونے والا بچہ ایتھن بازیابی کے بعد بدھ کو اپنی چھٹی سالگرہ منانے جا رہا ہے۔

65 سالہ جم لی ڈائکس نے بس ڈرائیور کو ہلاک کرنے کے بعد ایتھن کو اغواء کر لیا تھا اور تقریباً ایک ہفتے تک اسے ایک تہہ خانے میں محبوس رکھا۔

جنوبی ریاست الاباما کی پولیس نے پیر کو بتایا تھا کہ بچے کو بازیاب کرا لیا گیا ہے جب کہ اغواء کار ہلاک ہو گیا ہے۔

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے حکام نے بچے کی بازیابی سے قبل کی صورتحال کو بہت خطرناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ تہہ خانے سے دو بم بھی برآمد ہوئے جنہیں ناکارہ بنا دیا گیا۔

اغواء کار سے مذاکرات کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ چار فٹ زیر زمین چھ فٹ چوڑے اور آٹھ فٹ لمبے تہہ خانے میں ایک چوڑا پلاسٹک پائپ ڈال کر بات چیت کی گئی اور بچے کو اسی پائپ کے ذریعے کھلونے اور خوراک بھی مہیا کی گئی۔

بچے کی ماں نے ایف بی آئی، مقامی پولیس اور ریاستی حکام کو لکھے گئے تہنیتی پیغام میں کہا ہے کہ جن افراد نے اس کے بچے کو بازیاب کرانے میں مدد کی وہ ان کے اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔

’’تقریباً ایک ہفتے کے بعد پہلی مرتبہ جب میں بیدار ہوئی تو سب سے خوبصورت نظارہ تھا کہ میرا بیٹا میرے ساتھ تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ اپنے بیٹے کو دوبارہ حاصل کرنا کتنا حیرت انگیز ہے…ایتھن محفوظ ہے اور میری آغوش میں واپس آ گیا ہے۔‘‘

ایف بی آئی کے حکام کے مطابق اغواء کار کی ذہنی حالت کے بارے میں شبہ ہونے پر ان کے اہلکار اس شخص کا دھیان بٹاتے ہوئے تہہ خانے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں ڈائکس اور اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس میں اغواء کار مارا گیا۔

بازیاب ہونے والے بچے ایتھن کو اس کارروائی میں کوئی زخم تو نہیں آئے لیکن اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے سے بچے کے ذہن پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں.
بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس ’’ڈراؤنے خواب کی کیفیت سے نکلنے کے لیے تخلیہ اور وقت درکار ہے۔‘‘

لگ بھگ اڑھائی ہزار نفوس پر مشتمل یہ چھوٹا سا علاقہ اس واقعے کے دوران پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ گرجا گھروں میں رات کو خصوصی دعائیں اور شمعیں روشن کی جاتی رہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور یہاں جمع ہونے والے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو لوگ خوراک پہنچاتے رہے۔

اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس قرب کو اپنے دکھ کے طور پر محسوس کرتے رہے ہیں اور انھیں ایسا لگا کہ وہ سب اس صورتحال میں گرفتار ہیں۔

میری بیری براؤن لائبریری، جہاں ایتھن گرما کے تعلیمی پروگرام میں شرکت کرتا رہا ہے، وہاں ایتھن کے لیے خیر مقدمی بورڈ بھی آویزاں کیا گیا ہے۔ لائبریری کی نائب مہتمم کا کہناہے کہ وہ بچے کی بازیابی کے لیے بہت شدت سے دعائیں کرتی رہیں۔

’’ بہت سے لوگ دعائیں کر رہے تھے، ہم جانتے تھے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

ایتھن کے اسکول ’مڈلینڈ سٹی ایلیمنٹری‘ میں اس کی سالگرہ کی تیاریاں کی جا چکی ہیں۔ پرنسپل فلپ پارک کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت ہونہار اور دوستانہ رویے والا بچہ ہے اور وہ اس کی واپسی پر بہت خوش ہیں۔

یہ سارا واقعہ 29 جنوری کو اس وقت شروع ہوا جب پولیس کے مطابق ڈائکس نے ڈیل کاؤنٹی کی اسکول بس کو زبردستی روکا۔ بس ڈرائیور نے ڈائکس کو بس پر سوار ہونے سے روکا اور مزاحمت کے دوران 66 سالہ ڈرائیور چارلس پولینڈ جونیئر ہلاک ہوگیا۔

اس دوران 20 بچے بس کے عقبی دروازے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جب کہ ایتھن کو ڈائکس نے قابو کرلیا اور اسے اغواء کر لیا تھا۔
XS
SM
MD
LG