صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیا پالیسی پر، جس میں صدر نے بالخصوص پاکستان پر عسکریت پسندوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے پر زور دیا ہے، امریکہ میں مقیم تجزیہ کاروں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ صدر نے اپنے منصوبے کے خدوخال بتائیں ہیں، تفصیلات آنا ابھی باقی ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں مسٹر ٹرمپ نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر فیلو وینڈا فلبب براون نے کہا کہ صدر کی تقریر میں اگر کچھ نیا تھا تو وہ ان کا پاکستان کے لیے سخت لہجہ تھا باقی موقف وہی ہے جو برسوں سے امریکہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کرنے کو دونوں آپشن اختیار کر سکتا ہے یعنی ڈرون حملوں میں بھی اضافہ کر سکتا ہے اور اپنے فوجی بھی پاکستان میں اتار سکتا ہے۔ لیکن فوجی اتارنے کے لیے ان کو پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہو گا جو ان حالات میں بہت نا موزوں ہے۔ ان کے بقول پاکستان پوری صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اس خطے میں امریکہ کے مفادات کو ہدف بنائے۔ مس براون نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے سخت پیغام کے بعد مزاحمت کا رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے اور افغآن سرحد پرسکیورٹی سے متعلق واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان کے لیے راہداری بھی بند کر سکتا ہے جو اس نے سال 2011 میں سلالہ پر حملے کے بعد کی تھی۔ تجزیہ کار کے بقول بھارت کے افغانستان میں کردار کی بات بھی اسلام آباد کو ناگوار گزرے گی اور پاکستان ان حالات میں چین اور روس کے زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ تقریبا تمام طریقے استعمال کر چکا ہے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی مبینہ مدد سے روکنے کے لیے لیکن نہ تو کوایلیشن سپورٹ فنڈ (فوجی امداد) میں بندش کام آئی ہے اور نہ سویلین امدار میں رکاوٹ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے صدر نے اپنی تقریر میں اچھی گورننس اور بدعنوانی سے نمٹنے پر زور نہ دے کر ایک خلا قائم رکھا ہے۔
کامران بخاری، جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور سنٹر فار گلوبل ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے سخت لہجے کے باوجود امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی اتنہائی اقدام کرے گا نہ پاکستان کسی انتہائی ردعمل کی طرف جائے گا اور ان کے الفاظ میں ’’ بزنس ایز یوژل‘‘ چلتا رہے گا۔
سرور احمد زئے، افغانستان کے صدارتی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں، امریکہ میں مقیم ہیں لیکن افغانستان سے متعلق اعلی سطح کے بین الاقوامی اجلاسوں میں شریک نظر آتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی تقریر میں نمایاں بات پاکستان کے لیے سخت لب وہ لہجہ تھا لیکن ان کے بقول وہ صرف دبائو ڈالنا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کو کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں مددگار ہو۔ ان کے بقول پاکستان کا اب بھی اتنا اثر و رسوخ ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کر سکے۔
پاکستان کے دفاعی تجزیہ کار اور سینیٹر رٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے قبل ازیں اپنے انٹرویو میں کہا کہ جنوبی ایشیا سے متعلق اگر پالیسی کا اعلان مقصود تھا تو صدر ٹرمپ کو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھی ان کے بقول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنا چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ناکامیوں پر پاکستان کو قصوروار ٹھہرانا کسی طور درست نہیں۔ پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں اور بجائے اس کے کہ تعریف کی جائے، تنقید کی گئی۔