ہر انٹیلی جنس ا یجنسی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے دشمن کی صفوںمیں اپنا کوئی ایجنٹ داخل کرنے کا موقع مل جائے جو اندر کی اطلاعا ت بھی دیتا رہے اور ہو سکے تو دشمن کے منصوبوں میں خلل بھی ڈال دے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی اور امریکی انٹیلی جنس نے القاعدہ کی سب سے زیادہ مہلک شاخ ، جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ یا AQAP کے ساتھ یہی کچھ کیا۔
میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، القاعدہ نے انڈر ویئر بم کی زیادہ جدید اور ترقی یافتہ شکل کے بم کو لے کر کسی ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لیے جس شخص کو بھرتی کیا تھا، وہ ڈبل ایجنٹ تھا اور سی آئی اے کی پشت پناہی میں سعودی انٹیلی جنس کے لیے کام کر رہا تھا۔ یہ ایجنٹ جس کی اب تک نشاندہی نہیں کی گئی ہے، سعودی اور امریکی انٹیلی جنس افسروں کو بم دینے کے لیئے یمن سے رخصت ہو چکا ہے ۔
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہائیڈن کہتے ہیں کہ اس قسم کے آپریشنز کو عملی شکل دینا انتہائی مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے ۔
’’آپ کو نیٹ ورکس قائم کرنے پڑتے ہیں، اور دشمن کی صفوں میں داخل ہونے کے لیے حالات پیدا کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے بہت صبر چاہیئے ۔ میرے خیال میں گذشتہ چند دنوں میں ہم نے جو کچھ دیکھا ہے ، وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو کئی برس پہلے شروع ہوئی تھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ ہم القاعدہ کے خلاف جزیرہ نمائے عرب میں ، اور یمن میں اتنا ہی عبور حاصل کر لیں جتنا ہم نے جنوبی ایشیا میں القاعدہ کے خلاف حاصل کیا ہے ۔‘‘
اس قسم کی کارروائیوں میں، سی آئی اے اکثر ایسے انٹیلی جنس پارٹنرز پر انحصار کرتی ہے جو علاقے سے واقف ہوتے ہیں اور جن کے پاس ایسے لوگ ہوتےہیں جو عام آبادی میں آسانی سے گھل مل جائیں۔
واشنگٹن میں قائم فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں ایک فوجی تجزیہ کار سبسٹین گورکا کہتے ہیں کہ سعودی عرب ہمیشہ با اعتماد ساتھی ثابت نہیں ہوا ہے، خاص طور سے 2001 میں امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے بعد کے برسوں میں۔ لیکن جب القاعدہ نے سعودی عرب کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، تو دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
’’شروع کے چند برسوں میں، انھوں نے وعدے تو بہت کیے لیکن عملی طورپرکیا کچھ نہیں۔ اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اگر آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حکومت میں اعلیٰ سطح کے بہت سے لوگوں، اور سعودیوں کے اعلیٰ طبقے کی ہمدردیاں اسامہ بن لادن اور دوسری بنیاد پرست تنظیموں کے ساتھ تھیں۔ صحیح معنوں میں تبدیلی 2004، 2005، اور 2006 میں دیکھنے میں آئی جب القاعدہ نے سعودی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہائیڈن کہتے ہیں کہ سعودی قیادت، خاص طور سے وزیرِ داخلہ اور انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ پرنس محمد بن نائف آگ بگولا ہو گئے۔’’2003 اور 2004 میں پرنس محمد کے لیے یہ اولین ترجیح بن گئی، جب القاعدہ نے سعودی عرب میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور سعودی عرب میں حملے شروع کر دیے اور مغربی ملکوں کے لوگوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ بادشاہ اور ان کی سیکورٹی سروسز اس پر سخت ناراض ہوئیں اور شہزادہ محمد بن نائف نے سعودی عرب میں القاعدہ کے خلاف بڑی جارحانہ مہم شروع کر دی۔‘‘
اس کارروائی کے نتیجے میں القاعدہ کے بہت سے لیڈر فرار ہو یمن پہنچ گئے جہاں انھوں جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کی داغ بیل ڈالی۔
ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ علی سوفان القاعدہ کے خلاف خفیہ ایجنٹ کے طور پر اپنے رول کے بارے میں ایک کتاب دی بلیک بینر کے مصنف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ کی جتنی بھی شاخیں قائم ہوئی ہیں، ان میں جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ سب سے زیادہ مہلک بن گئی ہے۔
’’جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کو جو خاص حیثیت حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ارکان، بن لادن کی القاعدہ کے قریب ترین تھے ۔ القاعدہ کی بہت سی شاخیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرتی ہیں۔ لیکن ان میں شامل لوگ نائن الیون کے بعد القاعدہ میں شامل ہوئے ۔ لیکن جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کے لوگ وہ ہیں جنھوں نے بن لادن کے لیے کام کیا، اور جنھوں نے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت حاصل کی۔‘‘
مائیکل ہائیڈن کہتے ہیں کہ یمن میں حالیہ سیاسی خلفشار سے جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کو کام کرنے کے زیادہ مواقع ملے ہیں ۔’’اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ ہم القاعدہ کی قیادت کے خلاف کارروائی میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یمن میں کچھ علاقے ایسے ہیں جو بظاہر جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں ایسے گاؤں ہیں جہاں القاعدہ کا سیاہ پرچم لہرا رہا ہے ۔ لہٰذا ، ابھی ہمیں بہت سا کام کرنا باقی ہے۔‘‘
جیسا کے ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ علی سوفان نے کہا ہے، سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں ہم 100 فیصد کامیاب ہوں، لیکن اگر دہشت گرد صرف ایک بار ہی کامیاب ہو جائیں تو اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے ۔