رسائی کے لنکس

امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی


امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی
امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی

شہری آزادیوں پر نظر رکھنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی سرحدوں پر مامورعہدے دار امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وہ بیرونی ملکوں کے دوروں سے واپس آنے والے مسلمانوں سے ان کے مذہبی عقائد اور رسم و رواج کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

امریکی شہری کے کیا حقوق ہیں، یہ حسن شبلی سے زیادہ کون جانے گا۔ وہ نیو یارک کی یونیورسٹی آف Buffalo میں قانون کے طالب علم ہیں، اور ریاست نیو یارک کی سپریم کورٹ میں ایک جج کے کلرک رہ چکے ہیں۔ گذشتہ گرمیوں میں وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ حج کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ گئے اور پھر وہاں سے اپنے خاندان کے لوگوں سے ملنے شام چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ واپسی پر، نیو یارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر انھیں پوچھ گچھ کے لیے الگ لے جایا گیا۔

شبلی کہتے ہیں کہ ایک ایجنٹ نے ان سے پوچھا کہ وہ کتنے خداؤں اور پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور کیا وہ پورے وقت اپنے مذہب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق ’’میرے خیال میں ایک انتہائی قابلِ اعتراض بات یہ تھی کہ پوچھ گچھ کے آخر میں ایجنٹ نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ آپ ناراض نہیں ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ ہم اس ملک کو بموں اور دہشت گردوں سے بچانا چاہتے ہیں۔‘‘

Lawrence Ho بھی امریکی شہری ہیں اور نو مسلم ہیں۔ انہیں کینیڈا سے ملنے والی ایک سرحدی چوکی پر روکا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں چار گھنٹے تک روکا گیا اور پوچھ گچھ کے انداز میں، ایک بند کمرے میں، مسلح محافظوں کی موجودگی، مذہبی سوالات پوچھے گئے۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی طور سے ان کا سلوک ایسا ہے جیسے آپ کوئی مشتبہ شخص ہیں۔ میں نے وہاں خود کو ایک مجرم کی طرح محسوس کیا۔ بعض اوقات تو آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے۔

Ho اور شبلی کے بیانات ایک شکایت کا حصہ ہیں جو دو گروپوں ، امریکی سول لبرٹیز یونین اور مسلم ایڈووکیٹس نے، حکومت سے کی ہے۔ اس شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ U.S. Customs and Border Protection Agency یا CBP مسلمانوں یا ایسے لوگوں سے جو مسلمان معلوم دیتے ہیں، ان کے مذہبی اور سیاسی عقائد، ان کی وابستگیوں اور سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

حنا شمسی امریکی سول لبرٹیز یونین کی نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم سب یہ بات سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ملک کو محفوظ اور سلامت رکھے اور ہم بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بے گناہ امریکی مسلمانوں سے ان کے مذہب اور سیاسی عقائد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے سے ملک کی حفاظت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ اس طرح آئین کی پہلی ترمیم کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے جس میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ شمسی کہتی ہیں کہ امریکی شہری اور یہاں رہنے والوں کی اس طرح صرف اس صورت میں پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے اگر کسی قابل اعتبار ثبوت کی بنا پر کہ کوئی شخص مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، شک و شبہے کی کوئی معقول وجہ موجود ہو۔

امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی
امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی

ان الزامات کے بارے میں وائس آف امریکہ کی طرف سے سوالات کے جواب میں CBP نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسافروں کو پوچھ گچھ کے لیے ان کے مذہب یا نسل کی بنیاد پر منتخب نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ اس بیان میں مذہبی سوالات کے مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی، لیکن یہ ضرور کہا گیا ہے کہ مسافروں کو روکنے اور ان کی شہریت، شناخت اور ملک میں داخل ہونے کی اہلیت کے بارے میں تفتیش کے لیے ضروری نہیں کہ ان کے بارے میں شبہ کرنے کی معقول وجہ موجود ہو۔

شبلی اپنے گھرانے کے ساتھ چار برس کی عمر میں امریکہ آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر انھیں جو تجربہ ہوا اس سے انھیں اپنے ایک سالہ بیٹے کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

میں چاہتا ہوں کہ وہ اسی امریکہ میں بڑا ہو جس میں، میں بڑا ہوا تھا۔ ایسا امریکہ جس میں لوگ مذہبی، سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں اور جس میں ہم سب کو امریکی سمجھا جائے اور جہاں ہم ایک دوسرے سے محبت کریں اور سب کے فائدے کے لیے مل جل کر کام کریں۔

11 ستمبر، 2001ء کے بعد سے امریکہ میں زور شور سے یہ بحث جاری ہے کہ ملک کی مسلمان اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزی کیے بغیر، امریکہ کو اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی سے کیسے محفوظ رکھا جائے اور یہ بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG