پاکستان، افغانستان، امریکہ اور دیگر ممالک میں جاری دہشت گردی، خودکش حملوں کا نشانہ جہاں معصوم لوگ بن رہے ہیں وہیں القائدہ اور دیگردہشت گرد گروپوں کی کاروایئوں سے امریکی مسلمان بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں جہاں پر باقاعدہ طور پر مسلمانوں کےخلاف ،ہیٹ گروپس، معرض وجود میں آچکے ہیں۔
دہشتگرد تنظیموں کی کاروایئوں کی وجہ سے اب امریکی مسلمانوں کو اپنی صفائی دینا پڑرہی ہے اور خدا کے گھر مسجد کو انتہا پسندی کے داغ سے دھونا پڑ رہا ہے-
اسی صورتحال کے تناظر میں امریکی مسلمانوں کی تین درجن سے زائد تنظیموں نے کانگریس کی ہئوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کے چیرمین پیٹر کنگ کی جانب سے امریکہ میں اسی فیصد سے زائد مساجد کو انتہاپسندی کا منبع قرار دینے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کمیٹی کی جانب سے امریکی مسلمانوں کی انتہا پسندی کے عنوان سے جو سماعت جمعرات کو ہئونا ہے بلا جواز ہے-
امریکی مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے نمائیندوں نے اس بات کا اعلان واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں بدھ کے روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا
کانگریس کی ہئوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کے چیرمین پیٹر کنگ جمعرات کو امریکی مسلمانوں کی انتہا پسندی میں ملوث ہئونے کے معاملہ کی سماعت کر رہے ہیں جو کہ اس بات کا جائزہ لےگی کہ امریکی مسلمان اور مساجد کس ھد تک انتہاپسندی میں ملوث ہیں-
ان تنظیموں کا موقئف تھا کہ کانگریس کو امریکی مذاہب یا سیاسی عقائد پر سرکاری سماعت کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں خواہ ان عقائد کا تعلق انتہا پسندی سے ہی کیوں نہ ہئو-
اس سے قبل مسلمانوں کی ایک تنظیم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) نے چیئرمین پیٹر کنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملہ کی سماعت سے پہلے خود کی وضاحت کریں کہ وہ بدنام زمانہ اینٹی اسلام گروپ کے آلہ کار کیوں بنے ہئوے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس گروپ سے ہدایات بھی وصول کر رہے ہیں-
واشنگٹن میں قائم تنظیم کیئر نے یہ مطالبہ اس وقت کیا جب مسلمانوں کی نفرت پر قائم انتہا پسند گروپ کے مرکزی لیڈر بریجیٹ جبرایئل نے جب اعلان کیا کہ وہ لوگ چیئرمین پیٹر کنگ کے ساتھ مشترکہ طور پر کا کر رہے ہیں-
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہئوے امریکی مسلمانوں کی تنظیموں نے کہا کہ پیٹرکنگ کی سیاست کا محور ہی مسلمان دشمنی ہے سن 2004 میں انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 80-85 فیصد مساجد بنیادپرست کنٹرول کر رہے ہیں- 2007 میں انکا موقئف تھا کہ امریکہ میں بہت زیادہ مساجد قائم ہئو رہی ہیں پھر 2010 میں انہوں نے اعلان کیا کہ امریکی مسلمان امریکی نہیں ہیں- اب 2011 میں وہ امریکی مسلمانوں پر ناجائز انتہاپسندی کا لیبل لگا کر نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں-
امریکہ میں قائم مسلمان تنظیمیں گزشتہ ایک برس سے قومی سطح پر مسلمانوں کے خلاف جذبات اور نفرت کو ابھرتا ہئوا محسوس کر رہے ہیں اور ان میں تیزی آتی جارہی ہے- اس صورتحال کا ذمہ دار مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلانے والے گروپس (ہیٹ گروپس) کو قرار دیا جا رہا ہے جن میں ایک بڑا گروپ اے۔سی۔ٹی ہے جسکے لیڈربریجٹ گبرائیل جنکا دعوی ہے کہ وہ کنگ کے ساتھ کام کر رہے ہیں-
پریس کانفرنس میں مسلمان تنظیموں کا کہنا تھا کہ کانگریس کی کمیٹی کو محض افواسازی پر کان نہیں دھرنے چاہیں بلکہ حقائق اور سائنٹیفک تجزیہ کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھنا چاہیے-لیکن پیٹر کنگ کی سماعت کا بنیادے مقصد ہی مسلمانوں کی کردارکشی ہو تو اسکے نتائج منفی ہی ہونگے-
پریس کانفرنس میں شرکت کرنےوالی تنظیموں میں امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز-امریکن سول لبرٹی یونین-امریکن بک سیلرز فاونڈیشن- امریکن فرینڈز سروس-کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز-مائی فیس،مائی وائس- امریکن فرینڈز سروسزو دیگر شامل تھے-
پریس کانفریس میں مطالبہ کیا گیا کہ کمیٹی امریکی مسلمانوں کی انتہا پسندی چیک کرنے کی بجائے اصل مسلئہ یعنی دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرے-