واشنگٹن —
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ فروری کے آخر تک حکومت کے پاس بلوں کی ادائگی کے لیے رقوم دستیاب نہیں ہوں گی، جب کہ پچھلے اندازوں کے مطابق، یہ صورتِ حال کچھ تاخیر سے واقع ہونے والی تھی۔
دسمبر میں، محکمہٴخزانہ کے سربراہ، جیکب لیو نے کانگریس کے قائدین کو ایک مراسلے میں تحریر کیا تھا کہ قومی قرضہ جات کی حد فروری کے آخر یا مارچ کے شروع تک مشکل کا شکار ہوگی۔ تاہم، جمعرات کو اُنھوں نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ ملک کی ادھار کی حد کو فروری کے اواخر تک بڑھا دیا جائے، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ ملک قرضہ جات کے معاملے میں ’ڈفالٹ‘ نہ کرے۔
کئی سالوں سے امریکہ کے قومی قرضہ جات کی رقم متواتر بڑھتے بڑھتے 17.3 ٹرلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جس میں اضافہ آتا جارہا ہے۔
حکومت نے اکتوبر میں قرضہ جات کی حد پر روک لگا دی تھی، جسے سات فروری کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اِس تاریخ سے محکمہٴخزانہ کے اہل کار اپنے ’خصوصی اختیارات‘ استعمال کرتے ہوئے، ملک کے اخراجات بجا لائیں گے، حالانکہ اُس وقت نقدی کی دستیابی ختم ہو رہی ہو گی۔
حالیہ برسوں کے دوران، ملک کے قرضہ جات کی حد بڑھانے کے معاملے پر واشنگٹن میں سیاسی طور پر سخت پنجہ آزمائی کا سامنا رہا ہے۔ صدر براک اوباما، جِن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے، اس بات کے کوشاں رہے ہیں کہ قومی قرضہ جات کی حد کو کسی بات سے مشروط کیے بغیر بڑھا دیا جائے۔
اُن کا کہنا ہے کہ قرضہ جات سے متعلق نئے اختیارات ضروری ہیں، تاکہ ملک کی طرف سے پہلے ہی حاصل کردہ قومی قرضوں کی ادائگی ممکن بنائی جاسکے۔ کانگریس میں اُن کے ریپلیکن مخالفین چاہتے ہیں کہ قومی قرضہ جات کی حد میں اضافے سے قبل ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومتی اخراجات میں کٹوتیاں لاگو کی جائیں۔
ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، جان بینر نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ قرضہ جات کی حد بڑھانے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ لیکن، کسی طور پر بھی، امریکہ کو اپنے قرضہ جات کی ادائگی کے معاملے پر ناکامی کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔
اُن کے الفاظ میں، ’بس۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ہمیں اپنے قومی قرضے کی ادائگی کے معاملے میں ڈیفالٹ کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمیں اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے‘۔
پانچ برس قبل، جب سے مسٹر اوباما وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدے پر فائر ہیں، حکومتی اخراجات اور قرضہ جات کے معاملات متنازعہ فی رہے ہیں۔ تاہم، اب کانگریس سمجھوتے پر مبنی 1.1 ٹرلین ڈالر کے حکومتی اخراجات کے منصوبے پر قانون سازی کی منظوری کے قریب ہے، جس کے ذریعے، 2014ء کی بجٹ تجاویز کے لیے رقوم فراہم ہو جائیں گی۔
دسمبر میں، محکمہٴخزانہ کے سربراہ، جیکب لیو نے کانگریس کے قائدین کو ایک مراسلے میں تحریر کیا تھا کہ قومی قرضہ جات کی حد فروری کے آخر یا مارچ کے شروع تک مشکل کا شکار ہوگی۔ تاہم، جمعرات کو اُنھوں نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ ملک کی ادھار کی حد کو فروری کے اواخر تک بڑھا دیا جائے، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ ملک قرضہ جات کے معاملے میں ’ڈفالٹ‘ نہ کرے۔
کئی سالوں سے امریکہ کے قومی قرضہ جات کی رقم متواتر بڑھتے بڑھتے 17.3 ٹرلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جس میں اضافہ آتا جارہا ہے۔
حکومت نے اکتوبر میں قرضہ جات کی حد پر روک لگا دی تھی، جسے سات فروری کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اِس تاریخ سے محکمہٴخزانہ کے اہل کار اپنے ’خصوصی اختیارات‘ استعمال کرتے ہوئے، ملک کے اخراجات بجا لائیں گے، حالانکہ اُس وقت نقدی کی دستیابی ختم ہو رہی ہو گی۔
حالیہ برسوں کے دوران، ملک کے قرضہ جات کی حد بڑھانے کے معاملے پر واشنگٹن میں سیاسی طور پر سخت پنجہ آزمائی کا سامنا رہا ہے۔ صدر براک اوباما، جِن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے، اس بات کے کوشاں رہے ہیں کہ قومی قرضہ جات کی حد کو کسی بات سے مشروط کیے بغیر بڑھا دیا جائے۔
اُن کا کہنا ہے کہ قرضہ جات سے متعلق نئے اختیارات ضروری ہیں، تاکہ ملک کی طرف سے پہلے ہی حاصل کردہ قومی قرضوں کی ادائگی ممکن بنائی جاسکے۔ کانگریس میں اُن کے ریپلیکن مخالفین چاہتے ہیں کہ قومی قرضہ جات کی حد میں اضافے سے قبل ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومتی اخراجات میں کٹوتیاں لاگو کی جائیں۔
ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، جان بینر نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ قرضہ جات کی حد بڑھانے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ لیکن، کسی طور پر بھی، امریکہ کو اپنے قرضہ جات کی ادائگی کے معاملے پر ناکامی کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔
اُن کے الفاظ میں، ’بس۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ہمیں اپنے قومی قرضے کی ادائگی کے معاملے میں ڈیفالٹ کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمیں اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے‘۔
پانچ برس قبل، جب سے مسٹر اوباما وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدے پر فائر ہیں، حکومتی اخراجات اور قرضہ جات کے معاملات متنازعہ فی رہے ہیں۔ تاہم، اب کانگریس سمجھوتے پر مبنی 1.1 ٹرلین ڈالر کے حکومتی اخراجات کے منصوبے پر قانون سازی کی منظوری کے قریب ہے، جس کے ذریعے، 2014ء کی بجٹ تجاویز کے لیے رقوم فراہم ہو جائیں گی۔