واشنگٹن —
صدر براک اوباما اور امریکی کانگریس کے ریپبلیکن لیڈرز اب بھی بجٹ میں خسارے کی کمی کے مصالحتی فارمولے کی تلاش میں ہیں تاکہ تقریباً نصف ٹریلین ڈالر کے ٹیکسوں میں اضافے اور بجٹ میں کمی سے بچ سکیں۔
اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو ٹیکسوں میں اضافہ اور بجٹ میں کمی، اگلے سال یکم جنوری سے نافذ العمل ہو جائے گی۔ وہ کون سے سیاسی حقائق ہیں جن کی بنا پر سمجھوتے میں اتنی دشواری ہو رہی ہے.
برسوں سے امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والے ریپبلیکنز یہ عہد کرتے رہے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ٹیکسوں میں اضافے کی ہر کوشش کا مقابلہ کریں گے۔
درجنوں ریپبلیکن امیدواروں نے ایسے عہد ناموں پر دستخط کیے ہیں جن میں ووٹروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ نئے ٹیکسوں کی مزاحمت کریں گے۔ ٹیکسوں کی مخالفت بہت سے قدامت پسند سرگرم کارکنوں اور فنڈز جمع کرنے والوں کی لیے جو ریپبلیکن امیدواروں کو مدد فراہم کرتے ہیں، بنیادی ترجیح ہے۔
ٹیکسوں میں لازمی اضافے اور بجٹ میں کمی کو ’فسکل کلف‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں ریپبلیکنز کی ترجیح یہ ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے۔ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بوہنر نے کہا ہے کہ ’’واشنگٹن کا مسئلہ بے تحاشا خرچ کا ہے اور یہ مسئلہ صرف ٹیکسوں میں اضافے سے حل نہیں ہو سکتا۔‘‘
لیکن صدر اوباما اور کانگریس میں ان کے ڈیموکریٹک اتحادیوں کی پوری توجہ مالدار امریکیوں پر ٹیکسوں میں اضافے پر ہے اور ریپبلیکنز کے ساتھ مذاکرات میں وہ اسی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت
دو لاکھ پچاس ہزار ڈالر سے زیادہ سالانہ آمدنی والے امریکیوں پر ٹیکس میں اضافے کی حامی ہے اور صدر اوباما نے اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم میں اس مسئلے کو نمایاں کیا تھا۔
ڈیموکریٹس کو میڈی کیئر، میڈی کیڈ اور سوشل سیکورٹی جیسے پروگراموں میں کمی کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ یہ وہ پروگرام ہیں جن کے تحت بوڑھے، غریب اور معذور لوگوں کو حکومت کی طرف سے علاج معالجے کی سہولتیں اور بنیادی پینشن ملتی ہے۔
بعض ریپبلیکنز کا مطالبہ ہے کہ سرکاری امداد کے ان پروگراموں میں اصلاحات کی جائیں تا کہ لمبے عرصے میں ان کی لاگت کم ہو جائے، مثلاً میڈی کیئر وصول کرنے کی اہلیت کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 67 سال کر دی جائے ۔
لیکن ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹک لیڈر ننسی پلوسیکے لیے ایسا کرنا ناقابلِ قبول ہے۔
’’میڈی کیئر کی اہلیت کی عمر بڑھانے کی بات بھی ذہن میں نہ لائیے۔ ہم امریکہ کے مالدار ترین لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے امریکہ کے بوڑھے لوگوں کو بے یارو مد گار نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
ٹیکس بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے مذاکرات میں دونوں پارٹیوں پر بہت زیادہ داخلی دباؤ پڑ رہے ہیں۔
140 قدامت پسند لیڈروں کے ایک گروپ نے کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ صدر کے ساتھ ٹیکسوں کے مسئلے پر کوئی مصالحت نہ کریں۔
لیڈر شپ انسٹی ٹیوٹ نامی ایک قدامت پسند گروپ کے صدر مارٹن بلیک ویل نے اس مہم کو منظم کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں جو ریپبلیکن ارکان صدر سے تعاون کریں گے، انہیں مستقبل میں پرائمری انتخابات میں قدامت پسند امیدواروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’ایسا کرنا نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا، بلکہ خود ان کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہو گا اگر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور صدر اوباما کو اپنے ایجنڈے میں پیش رفت کی اجازت دے دی۔ان کے پاس بری چیزوں کے واقع ہونے سے روکنے کی طاقت ہے۔‘‘
ٹیکسوں میں اضافے اور اخراجات میں کمی پر مصالحت نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت کے سائز اور رول کے بارے میں دونوں فریقوں کے نظریات بہت مختلف ہیں۔
ریاست مزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر سٹیون سمیتھ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس اپنے اس نظریے پر قائم ہیں کہ معاشرے میں حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے۔
’’ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے اخراجات اور آمدنی کی سطح اونچی رہے اور وہ معاشرے کے مختلف مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی رہے۔ ریپبلیکنز آمدنی اور اخراجات کی سطح کم رکھنا چاہتے ہیں تا کہ معیشت میں وفاقی حکومت کا رول محدود رہے۔‘‘
لیکن کچھ ریپبلکنز کا بھی یہ خیال ہے کہ ان کی پارٹی کو گذشتہ مہینے کے انتخاب کے نتائج کی طرف دھیان دینا چاہیئے جن میں صدر دوبارہ منتخب ہوئے اور ڈیموکریٹس کو سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں زیادہ نشستیں ملیں۔
کین ڈبرسٹین صدر رونلڈ ریگن کے تحت وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ بالکل واضح پیغام تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اور ہمارے سرکاری عہدے دار ، ہمارے مالیاتی اور دوسرے مسائل کے حل کے لیے مل جل کر کام کریں ۔‘‘
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی دو تہائی اکثریت چاہتی ہے کہ دونوں فریق کوئی سمجھوتہ کر لیں اور ’فسکل کلف‘ سے بچ جائیں جس سے امریکی معیشت کساد بازاری کے دور میں واپس جا سکتی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل اور این بی سی کے حالیہ جائزے سے پتہ چلا ہے کہ اگر مصالحت کی کوششیں نا کام ہو گئیں تو سروے میں شامل 56 فیصد لوگ اس کا الزام دونوں فریقوں کو دیں گے۔
اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو ٹیکسوں میں اضافہ اور بجٹ میں کمی، اگلے سال یکم جنوری سے نافذ العمل ہو جائے گی۔ وہ کون سے سیاسی حقائق ہیں جن کی بنا پر سمجھوتے میں اتنی دشواری ہو رہی ہے.
برسوں سے امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والے ریپبلیکنز یہ عہد کرتے رہے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ٹیکسوں میں اضافے کی ہر کوشش کا مقابلہ کریں گے۔
درجنوں ریپبلیکن امیدواروں نے ایسے عہد ناموں پر دستخط کیے ہیں جن میں ووٹروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ نئے ٹیکسوں کی مزاحمت کریں گے۔ ٹیکسوں کی مخالفت بہت سے قدامت پسند سرگرم کارکنوں اور فنڈز جمع کرنے والوں کی لیے جو ریپبلیکن امیدواروں کو مدد فراہم کرتے ہیں، بنیادی ترجیح ہے۔
ٹیکسوں میں لازمی اضافے اور بجٹ میں کمی کو ’فسکل کلف‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں ریپبلیکنز کی ترجیح یہ ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے۔ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بوہنر نے کہا ہے کہ ’’واشنگٹن کا مسئلہ بے تحاشا خرچ کا ہے اور یہ مسئلہ صرف ٹیکسوں میں اضافے سے حل نہیں ہو سکتا۔‘‘
لیکن صدر اوباما اور کانگریس میں ان کے ڈیموکریٹک اتحادیوں کی پوری توجہ مالدار امریکیوں پر ٹیکسوں میں اضافے پر ہے اور ریپبلیکنز کے ساتھ مذاکرات میں وہ اسی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت
دو لاکھ پچاس ہزار ڈالر سے زیادہ سالانہ آمدنی والے امریکیوں پر ٹیکس میں اضافے کی حامی ہے اور صدر اوباما نے اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم میں اس مسئلے کو نمایاں کیا تھا۔
ڈیموکریٹس کو میڈی کیئر، میڈی کیڈ اور سوشل سیکورٹی جیسے پروگراموں میں کمی کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ یہ وہ پروگرام ہیں جن کے تحت بوڑھے، غریب اور معذور لوگوں کو حکومت کی طرف سے علاج معالجے کی سہولتیں اور بنیادی پینشن ملتی ہے۔
بعض ریپبلیکنز کا مطالبہ ہے کہ سرکاری امداد کے ان پروگراموں میں اصلاحات کی جائیں تا کہ لمبے عرصے میں ان کی لاگت کم ہو جائے، مثلاً میڈی کیئر وصول کرنے کی اہلیت کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 67 سال کر دی جائے ۔
لیکن ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹک لیڈر ننسی پلوسیکے لیے ایسا کرنا ناقابلِ قبول ہے۔
’’میڈی کیئر کی اہلیت کی عمر بڑھانے کی بات بھی ذہن میں نہ لائیے۔ ہم امریکہ کے مالدار ترین لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے امریکہ کے بوڑھے لوگوں کو بے یارو مد گار نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
ٹیکس بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے مذاکرات میں دونوں پارٹیوں پر بہت زیادہ داخلی دباؤ پڑ رہے ہیں۔
140 قدامت پسند لیڈروں کے ایک گروپ نے کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ صدر کے ساتھ ٹیکسوں کے مسئلے پر کوئی مصالحت نہ کریں۔
لیڈر شپ انسٹی ٹیوٹ نامی ایک قدامت پسند گروپ کے صدر مارٹن بلیک ویل نے اس مہم کو منظم کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں جو ریپبلیکن ارکان صدر سے تعاون کریں گے، انہیں مستقبل میں پرائمری انتخابات میں قدامت پسند امیدواروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’ایسا کرنا نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا، بلکہ خود ان کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہو گا اگر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور صدر اوباما کو اپنے ایجنڈے میں پیش رفت کی اجازت دے دی۔ان کے پاس بری چیزوں کے واقع ہونے سے روکنے کی طاقت ہے۔‘‘
ٹیکسوں میں اضافے اور اخراجات میں کمی پر مصالحت نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت کے سائز اور رول کے بارے میں دونوں فریقوں کے نظریات بہت مختلف ہیں۔
ریاست مزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر سٹیون سمیتھ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس اپنے اس نظریے پر قائم ہیں کہ معاشرے میں حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے۔
’’ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے اخراجات اور آمدنی کی سطح اونچی رہے اور وہ معاشرے کے مختلف مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی رہے۔ ریپبلیکنز آمدنی اور اخراجات کی سطح کم رکھنا چاہتے ہیں تا کہ معیشت میں وفاقی حکومت کا رول محدود رہے۔‘‘
لیکن کچھ ریپبلکنز کا بھی یہ خیال ہے کہ ان کی پارٹی کو گذشتہ مہینے کے انتخاب کے نتائج کی طرف دھیان دینا چاہیئے جن میں صدر دوبارہ منتخب ہوئے اور ڈیموکریٹس کو سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں زیادہ نشستیں ملیں۔
کین ڈبرسٹین صدر رونلڈ ریگن کے تحت وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ بالکل واضح پیغام تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اور ہمارے سرکاری عہدے دار ، ہمارے مالیاتی اور دوسرے مسائل کے حل کے لیے مل جل کر کام کریں ۔‘‘
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی دو تہائی اکثریت چاہتی ہے کہ دونوں فریق کوئی سمجھوتہ کر لیں اور ’فسکل کلف‘ سے بچ جائیں جس سے امریکی معیشت کساد بازاری کے دور میں واپس جا سکتی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل اور این بی سی کے حالیہ جائزے سے پتہ چلا ہے کہ اگر مصالحت کی کوششیں نا کام ہو گئیں تو سروے میں شامل 56 فیصد لوگ اس کا الزام دونوں فریقوں کو دیں گے۔