ایسے میں جب یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ایران امریکی اہداف پر حملے کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے، ’اسٹرائیک گروپ‘ سے مسلح طیارہ بردار ’یو ایس ایس ابراہم لنکن‘ بحری بیڑہ اور چار بی 52 بمبار طیارے مشرق وسطیٰ پہنچ چکے ہیں۔
امریکی سینٹرل کمان کے ترجمان، کیپٹن ولیم اربن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اسٹرائیک گروپ سوئز کینال کے ذریعے پہنچا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جمعرات کے روز دو بی 52 بمبار طیارے خطے میں پہنچے، جب کہ دو پہلے ہی بدھ کے دن پہنچ چکے ہیں۔
یہ بمبار طیارے اِس وقت قطر کے ’العبید‘ فضائی اڈے پر موجود ہیں۔ اس بات کی تصدیق ایک دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کی ہے۔
سینٹکام کے کمانڈر جنرل کنیتھ مکینزی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں بتایا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ان مزید فوجی اثاثوں کی درخواست ایران کی جانب سے کشیدگی پر مبنی کئی قسم کے انتباہ کے بعد براہ راست جواب کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی تھی۔
ایئر فورس کے چیف آف اسٹاف جنرل ڈیوڈ گولڈفائن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ فوری فوجی کمک سے ’’یہ پیغام ملتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہم کسی بھی خطرے کا جواب دے سکتے ہیں، جب کہ ہم وقت اور جگہ کا تعین کرکے مناسب جواب دیں گے‘‘۔
یورپی سربراہان نے ایران کی جانب سے موصول ہونے والے خدشات کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران اپنا جوہری پروگرام شروع نہیں کرے گا، ایسا کیا گیا تو ایران تاریخی عالمی سمجھوتے کو توڑنے کا اقدام کرے گا۔
امریکہ کی جانب سے بدھ کو ایران پر عائد کی جانے والی نئی تعزیرات سے چند گھنٹے قبل صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں 60 دن کے اندر تعزیرات کے خلاف ایران کو تحفظ فراہم نہیں کرتیں تو وہ یورینیم کی جائز حدوں سے تجاوز کرتے ہوئےاعلیٰ سطحی یورینیم تیار کرنا شروع کر دے گا۔
جمعرات کو جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ ’’ہم کسی الٹیمیٹم کو مسترد کرتے ہیں، اور ہم جوہری سمجھوتے میں کیے گئےوعدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران کی کارکردگی کو دیکھیں گے‘‘۔
یورپی سربراہان نے یہ بھی کہا کہ وہ 2015ء کے سمجھوتے کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، جس میں جوہری پروگرام ترک کرنے کے بدلے ایران پر عائد تعزیرات کو واپس لینا شامل ہے۔ معاہدے پر چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، امریکہ اور یورپی یونین نے دستخط کیے تھے۔ امریکہ ایک سال قبل سمجھوتے سے الگ ہوگیا تھا۔