چین پر سخت ترین تنقید ریپبلیکن پرائمری انتخابی مہم کے دوران اور امیدواروں کے درمیان مباحثوں میں کی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک مباحثہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے موضوع پر اس ہفتے ہوا۔ ریاست ٹیکسس کے گورنر ریک پیری نے کہا کہ امریکہ کے لیے قومی سلامتی کا سب سے بڑا مسئلہ چین ہے۔
’’یہ وہ ملک ہے جہاں روزانہ جبری طور پر 35,000 حمل ساقط کرائے جاتے ہیں جہاں پیپلز لبریشن آرمی سائبر سیکورٹی میں ملوث رہی ہے۔ اخلاقی طور پر اور سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے یہ بڑے سنگین مسائل ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے۔‘‘
ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر میٹ رومنی متفق ہیں کہ چین طویل مدت کے لیے سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انھوں نے حال ہی چین کے بارے میں اس طرح اظہارِ خیال کیا کہ ’’تجارت کے بارے میں ہم نے ان سے جو معاہدے کیے ہوئے ہیں وہ ان کی پابندی نہیں کرتے۔ چین کے کاروباری اداروں کا جن میں سے بہت سے حکومت کی ملکیت ہیں ایک انتہائی قابلِ مذمت طریقہ یہ ہے کہ وہ امریکی اور دوسری کمپنیوں کے ڈیزائن، پیٹنٹ اور ٹیکنالوجی چرا لیتے ہیں اور اسے دوبارہ فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح جو چیز ہم نے بنائی تھی وہ اس سے پیسہ بناتے ہیں۔‘‘
واشنگٹن میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار چینگ لی کہتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں اقتصادیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور سیاستدانوں کی کوشش ہے کہ اقتصادی انحطاط کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سر ڈال دیں۔ ’’آج کل جب ہم معیشت، عالمی معیشیت یا امریکی معیشت کی بات کرتےہیں، تو ہمیں لا محالہ چین کے عروج اور چین کی معیشت میں مسابقت کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کی بات کرنی پڑتی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ اس انتخاب میں، ریپبلیکن امیدواروں نے چین کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ’’عام طور سے زبردست اقتصادی مفادات کی وجہ سے ریپبلیکنز کو چین کا حامی سمجھا جاتا ہے لیکن اب سارا کھیل ہی بدل گیا ہے۔‘‘
تاہم چین کے لیے سخت الفاظ صرف صدارت کے ریپبلیکن امیدوار وں نے ہی استعمال نہیں کیے ہیں ۔ ہوائی میں (APEC) کے لیڈروں کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں صدر اوباما نے چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’20 یا 30 برس پہلے کے مقابلے میں آج کل چین کا رول مختلف ہے۔ اس زمانے میں اگر وہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے تھے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ تجارت میں عدم توازن اتنا زیادہ نہیں تھا کہ دنیا کا مالیاتی نظام متاثر ہوتا۔ اب وہ کافی بڑے ہو گئے ہیں اور انہیں دنیا کے مالیاتی نظام کوصحیح طریقے سے چلانے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔‘‘
بیجنگ پر اکثر تجارت میں دھوکہ دہی اور نامناسب تجارتی طریقوں کو روکنے کے لیے ضرورت اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ووٹرز ان چیزوں کا اثر قبول کرتے ہیں۔ گذشتہ مہینے سی بی ایس نیوز نے ایک سروے کے نتائج جاری کیے جن کے مطابق 61 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ چین کی تجارت میں پھیلاؤ کے برے اثرات مرتب ہوئےہیں۔
حال ہی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں امریکہ کے سفیر نے انٹرنیٹ پر چین کے سخت کنٹرول کے بارے میں، اپنے چینی ہم منصب کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں چین سے کہا گیا ہے کہ وہ بتائے کہ وہ انٹرنیٹ ویب سائٹس کو کیوں بلاک کرتا ہے اور اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس قسم کی کارروائیوں سے چینی صارفین تک کمپنیوں کی رسائی محدود ہو جاتی ہے ۔
اکتوبر میں امریکی سینیٹ نے ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن دونوں پارٹیوں کے سینیٹروں کی حمایت سے ایک بل پاس کیا جس کا مقصد چینی کرنسی کی قدر میں کمی بیشی کرنے پر، چین کو سزا دینے کی کوشش کرنا ہے ۔
چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا ہے کہ امریکی سیاست دان اپنے مسائل کا الزام چین پر دھر رہےہیں۔ اور چینگ لی کہتے ہیں کہ اگرچہ اس بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے کہ کہیں امریکہ مخالف جذبات قابو سے باہر نہ ہو جائیں ملک کے لیڈروں نے خود کو اس بحث میں نہیں الجھایا ہے۔
’’چینی قیادت نے کشیدگیوں کا ذکر کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے کیوں کہ اگر مستقبل میں انھوں نے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تو اس طرح ان کا کام اور زیادہ مشکل ہو سکتا ہے ۔‘‘
لی مزید کہتے ہیں کہ چین اس قسم کی کشیدگیوں سے بچنا چاہے گا کیوں جنوری میں چین کے نائب صدر سرکاری دورے پر امریکہ آنے والے ہیں۔ توقع ہے کہ Xi 2012 میں موجودہ صدر ہوجن تاؤ کی جگہ لے لیں گے۔ یہ وہی وقت ہو گا جب امریکہ میں انتخابات ہو رہے ہوں گے۔