رسائی کے لنکس

چین میں امریکی سرمایہ کاروں کے مسائل


چین میں امریکی سرمایہ کاروں کے مسائل
چین میں امریکی سرمایہ کاروں کے مسائل

چین میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں کے ایک اتحاد کے سربراہ نے کہا ہے کہ انہیں چین میں جو مسائل درپیش ہیں ان میں سرمایہ کاری پر پابندیاں، اور املاکِ دانش کے حقوق کی خلاف ورزیاں سرِ فہرست ہیں۔

اس مہینے کے شروع میں جب یو ایس چائنا بزنس کونسل کے صدر جان فرسبی ایک درجن سے زیادہ امریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ چین گئے، تو دونوں ملکوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ وہ پابندیاں تھیں جو چین کی طرف سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر لگائی جاتی ہیں۔

مسٹر فرسبی نے کہا’’میرے خیال میں سرمایہ کاری کا شعبہ دونوں معیشتوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنا ضروری ہے۔ بیشتر رکاوٹیں چین کی طرف سے کھڑی کی جاتی ہیں، اور شاید یہاں امریکہ میں بھی اس سلسلے میں کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن دونوں ملکوں کی معیشتوں کو اس سے فائدہ ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ براہ راست سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

اس ہفتے واشنگٹن میں رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے فرسبی نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ چین اس مسئلے پر توجہ دے۔ انہوں نے کہا’’صنعتی شعبے میں چین کے پاس ایک لمبی فہرست ہے جس کے تحت بعض چیزوں میں غیر ملکی سرمایہ کار کسی چینی شراکت دار کے ساتھ مل کر ہی مشترکہ کاروبار کر سکتے ہیں اور بعض کیسوںمیں تو مشترکہ کاروبار کی صورت میں غیر ملکیوں کا حصہ چینی شراکت دار سے کم ہونا ضروری ہے ۔‘‘

ایسے حالات میں، امریکی کمپنیوں کو یہ پریشانی ہو جاتی ہے کہ انہیں ٹیکنالوجی اور حساس معلومات اپنے چینی شراکت داروں کو منتقل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

فرسبی کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری کے علاوہ، املاکِ دانش کے حقوق اور برابر کا سلوک، دوسرے اہم معاملات تھے جن پر توجہ دینے کے لیے امریکی کاروباری لیڈروں نے چین پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ امریکی کمپنیوں کو املاکِ دانش کی چوری کے خلاف نو مہینے کی اس مہم سے مدد ملی جو چینی حکومت نے گذشتہ سال کے آخر میں شروع کی تھی، لیکن اس سلسلے میں مستقل نوعیت کی اور زیادہ سخت کارروائی کرنا ضروری ہے ۔

’’بنیادی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی معیار اپنائے جائیں اور لوگوں کو خلاف ورزی سے باز رکھنے کے لیے سزائیں دی جائیں ۔ چین نے اب تک ایسا نہیں کیا ہے ۔‘‘

امریکی بزنس لیڈرز کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ جب امریکی اور چینی عہدے دار اگلے ہفتے یو ایس چائنا جوائنٹ کمیشن آن کامرس اینڈ ٹریڈ کے تازہ ترین راؤنڈ میں چین میں Chengdu کے مقام پر ملیں گے، تو ان مسائل کے بارے میں ٹھوس پیش رفت ہوگی۔

یو ایس چائنا بزنس کونسل کے دوسو سے زیادہ ارکان ہیں اور ان میں بڑی امریکی کارپوریشنیں نیز چھوٹے کاروباری ادارے جیسے وکلا کی کمپنیاں اور کنسلٹینٹس شامل ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندیاں اور املاکِ دانش کے حقوق ان دس موضوعات میں شامل ہیں جن پر چین میں کاروبار کرنی والی امریکی کمپنیوں کو تشویش ہے ۔

جان فرسبی کہتے ہیں کہ اگرچہ امریکی کمپنیوں کو درپیش چیلنجوں میں سے بعض کا تعلق چینی حکومت کی پالیسیوں سے ہے لیکن بعض ایسے مسائل بھی ہیں جن کا سرکاری پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں۔’’اہم ترین مسئلہ افرادی قوت کا ہے یعنی ایسے ماحول میں جس میں چینی کمپنیوں سمیت بہت سی کمپنیاں دستیاب کارکنوں کو ملازم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان پر تنخواہوں اور اضافی مراعات دینے کا دباؤ ہے ۔ چین میں کاروبار کرنے کا اہم ترین مسئلہ افرادی قوت کا ہے۔‘‘

ایک اور مسئلہ جس سے چین میں کمپنیوں کے کاروبار کے پھیلاؤ میں رکاوٹ پڑتی ہے، یہ ہے کہ وہاں کمپنیوں کو بہت بڑی تعداد میں لائسنس حاصل کرنا ہوتے ہیں اور صحیح طریقوں سے بر وقت انداز میں لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ کارکنوں ، میٹیریلز ، زمین ، بجلی ، پانی اور دوسری سہولتوں کی لاگت، اور روز افزوں ٹیکس، چین میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔

فرسبی نے کہا’’ہر سال ، ہم کمپنیوں سے کہتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ گذشتہ 12 مہینوں کے درمیان کسی مخصوص مسئلے کی کیا کیفیت رہی ہے۔ گذشتہ سال کے دوران، جو مسئلہ سرِ فہرست رہا وہ لاگت میں اضافے کا تھا ۔ چین میں کاروبار کرنا مسلسل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے ۔‘‘

لیکن جان فرسبی کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی لاگت سے کمپنیاں مختلف انداز سے متاثر ہوتی ہیں۔ جو کمپنیاں چین کو کم لاگت پر اشیاء کی تیاری کے مرکز کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں، وہ اپنا کاروبار کہیں اور لے جا سکتی ہیں۔ جن کمپنیوں کے لیے چین کی منڈی اہم ہے، وہ چین میں ہی رہیں گی۔

لیکن یو ایس چائنا بزنس کونسل کے مطابق، گذشتہ سال اس کے بیشتر ارکان کے منافع میں دس فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ۔

XS
SM
MD
LG