رسائی کے لنکس

'بھارت کو مذہبی آزادی سے متعلق تشویش پائے جانے والے ملکوں میں شامل کیا جائے'


سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن بھارت کو مذہبی تشویش پائے جانے والے ملکوں میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)
سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن بھارت کو مذہبی تشویش پائے جانے والے ملکوں میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ بھارت کو اُن ممالک میں شامل کیا جائے جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے خاص تشویش پائی جاتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان دنیا کے ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں مذہبی آزادی پر قدغن عائد ہے، جس حوالے سے امریکہ کو خاص تشویش لاحق ہے۔

سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ''گزشتہ برس بھارت میں مذہبی آزادی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے اپنی پارلیمانی اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے ایسی پالیساں اختیار کیں جن میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور مساوی حیثیت متاثر ہوئی۔''

رپورٹ میں خاص طور پر شہریت کے ترمیمی قانون کا حوالہ دیا گیا ہے، جس سے متعلق کہا گیا ہے کہ ''یہ قانون غیر مسلم مہاجرین کو جلد از جلد بھارتی شہری بنانے کی اجازت دیتا ہے۔''

اس میں حکومتی موؑقف کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں سرکاری بیانات کے مطابق اس قانون کا مقصد غیر مسلم لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔

شہریوں کے قومی رجسٹر میں مسلمانوں سے متعلق امتیازی سلوک کے حوالے سے بہت سارے لوگوں کو پریشانی، حراست اور بے وطنی کی صورت حال کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''بھارت کی قومی اور ریاستی حکومتوں نے اقلیتوں کے خلاف تشدد اور ڈرانے دھمکانے کی مہم کی روک تھام میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اس سلسلے میں، نفرت انگیز اور تشدد اکسانے والے بیانات کو بھی برداشت کیا گیا''۔

واشنگٹن میں قائم 'سنٹر فار پلورلزم' کے بانی، ڈاکٹر مائیک غوث نے، جو کہ بھارت سے تعلق رکھتے ہیں، امریکی کمیشن کی سفارش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایسے ممالک میں شامل کیا جائے جہاں پر مذہبی آزادی کے حوالے سے خاص تشویش پائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ''میں گزشتہ چھ برس سے اپیل کرتا آ رہا ہوں کہ بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جائے، اور وہاں کی حکومت کو کہا جائے کہ مذہبی خلاف ورزیوں کو روکے''۔

بھارت: مسلم رہنما شہریت قانون میں تبدیلی کے لیے پُر امید
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

ڈاکٹر غوث نے کہا کہ گذشتہ چھ سال میں جب سے بی جے پی کی حکومت برسراقتدار ہے، مذہبی آزادی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے؛ اور اب جبکہ اسے ایسے ملکوں میں شامل کیا گیا ہے جہاں، بقول ان کے''مذہبی آزادی سکڑتی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کم ہوتے جا رہے ہیں''۔ انھوں نے کہا کہ ''ایسے عمل کے نتیجے میں ملک کو نقصان ہوگا، کیونکہ اس سے سماجی سطح پر بے چینی اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگی''۔

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ''اس کے اثرات سیاست پر بھی آئیں گے اور ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔ ایسے میں غیر ملکی سرمایہ دار ملک میں بزنس کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے، کیونکہ کسی بھی بزنس کی کامیابی کے لیے استحکام بہت ضروری ہے''۔

اپنی رپورٹ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن نے بھارت کے اگست 2019 کے اس فیصلے کا بھی حوالی دیا ہے، جس بنا پر کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی گئی اور اس کے بعد وہاں مذہبی آزادی پر مبینہ پابندی لگائی گئی۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ گائے کو ذبح کرنے کے واقعات کے الزام پر پرتشدد ہجوموں نے مبینہ طور پر مسلمانوں کو مارا۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ماضی میں امریکی کمیشن کی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے بیانات میں ملک کے خلاف تعصب نظر آتا ہے۔

پاکستان میں 2019 میں مثبت پیش رفت

امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان میں 2019 میں مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھلنے والی کرتار پور راہداری بھی شامل ہے۔ جس کے ذریعے بھارت سے یاتری گردوارہ دربار صاحب آ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پہلی سکھ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنا اور سیالکوٹ میں ہندوں کے مندر کو تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ کھولنے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے بری ہونے والی آسیہ بی بی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں حکومت کی طرف سے تعلیمی نصاب سے مذہبی منافرت کا سبب بننے والے نصاب کو خارج کرنے کو بھی مثبت اقدم قرار دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں قائم تقریبا 30ہزار مدارس کو یکساں نصاب کے ذریعے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی حکومتی کوششوں کو بھی ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس اقدام سے ملک میں انتہا پسندی کے تدارک میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے حوالے سے کمیشن نے کہا ہے کہ ''مذہبی آزادی کے سلسلے میں ملک میں منفی رجحانات جاری ہیں۔"

اس ضمن میں کمیشن نے کہا ہے کہ ''ملک میں توہین اسلام کے قوانین اور احمدیوں کے خلاف قوانین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیشن کے مطابق، بہت سے ہندوں، عیسائیوں اور سکھوں کو جبری طور پر مسلمان بنایا جاتا ہے اور حکومت ان کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ گزشتہ سال ایک ہجوم نے ایک عیسائی کمیونٹی پر توہین اسلام کا الزام لگنے کے بعد حملہ کیا''۔

وائس آف امریکہ نے جب پاکستان کے اقلیتوں کے سابق وزیر جے سالک سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی امریکہ کی 2020 کی رپورٹ تو نہیں دیکھی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بہت اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جے سالک کے مطابق، اگر پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کے مطابق اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے ہیں تو ان کا پاکستان کی پارلیمنٹ میں براہ راست الیکشن کے ذریعے موجود ہونا ضروری ہے۔

چین کے بارے میں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں مذہبی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوئی۔

آزاد ذرائع کے مطابق 9 لاکھ سے 18 لاکھ تک ویغور، قازق اور کرغیز گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو سنکیانگ صوبے کے 13 سو حراستی کیمپوں میں محصور کیا گیا ہے، جہاں انہیں اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان مسلمانوں سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے، اور بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ چین میں بہت سی مساجد کو مسمار بھی کیا گیا ہے اور بہت سے گرجا گھروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اگر چینی حکام مذہبی آزادی کی پامالی کو نہ روکیں تو امریکی حکام چین میں 2022 کے موسم سرما کے اولمپک گیمز میں شرکت نہ کریں۔

واشنگٹن میں مقیم ویغور مسلمان، روشن عباس کہتی ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کے خلاف مظالم کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک اچھا قدم ہے۔

بقول ان کے، ''چین میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی جو کارروائیاں جاری ہیں وہ اس صدی کے بڑے مظالم میں شامل ہیں۔ میں تو اسے قتل عام قرار دوں گی''۔
روشن عباس نے کہا کہ بچوں کو والدین سے محروم کرنے کے علاوہ چینی حکام ویغور مسلمان خوا تین کی جبری شادیاں کراتے ہیں۔

انہوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے چین کی حکومت پر دبائو ڈالے۔

XS
SM
MD
LG