امریکہ نے اسرائیل کے ان دو وزرا کے متنازع بیانات کی مذمت کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے ہجرت کرنے اور یہودی آباد کاروں کو محصور علاقے میں واپس آنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
واشنگٹن ڈی سی میں محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ اسرائیلی وزرا بیزلیل سموٹریچ اور ایتامار بین گویر کے حالیہ بیانات کو مسترد کرتا ہے جس میں غزہ سے باہر فلسطینیوں کی آباد کاری کی وکالت کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بیان بازی اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ترجمان نے واشنگٹن کے واضح اور مستقل مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ فلسطینیوں کی سر زمین ہے اور فلسطینیوں کی سر زمین رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسی سر زمین ہوگی جہاں حماس کا اس علاقے کے مستقبل پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی عسکری گروہ اسرائیل کو دھمکی دے سکیں گے۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بین گویر نے پیر کو غزہ کے رہائشیوں کی ہجرت کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک حل کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے اپنی فوج اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔
تل ابیب کے اس اقدام سے غزہ کے اندر اسرائیلی فورسز کی موجودگی ختم ہو گئی تھی جو 1967 میں شروع ہوئی۔ لیکن اسرائیل نے علاقے کی سرحدوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا تھا۔
اسرائیلی وزرا نے کیا کہا تھا؟
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی زیرِ قیادت حکومت نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے یا یہودی آباد کاروں کو علاقے میں واپس بھیجنے کا کوئی سرکاری طور پر منصوبہ نہیں بتایا۔
لیکن بین گویر نے دلیل دی تھی کہ فلسطینیوں کا نکل جانا اور اسرائیلی بستیوں کی دوبارہ تعمیر ایک درست، منصفانہ، اخلاقی اور انسانی حل ہے۔
انہوں نے اپنی انتہائی قوم پرست اوزما یہودیت یا یہودی طاقت پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک موقع ہے کہ غزہ کے باشندوں کو دنیا بھر کے ممالک میں ہجرت کرنے کی ترغیب دینے کا منصوبہ تیار کیا جائے۔
ایک روز قبل اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیرِ خزانہ سموٹریچ نے بھی غزہ میں آباد کاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔
سموٹریچ نے کہا تھا کہ اسرائیل کو اس علاقے کے 24 لاکھ فلسطینیوں کے انخلا کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اب تک کی سب سے خونریز جنگ
غزہ کی اب تک کی سب سے خون ریز جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل پر سات اکتوبر کو حملہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق سات اکتوبر سے جاری اسرائیل کی مسلسل بمباری اور زمینی کارروائی میں کم از کم 22 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی کے 85 فی صد آبادی اندرونی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہوئی اور اب یہ سب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
غزہ کا ہر باشندہ بھوک کا شکار
اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ماہرین نے منگل کو غزہ میں جنگ میں پھنسے شہریوں کے لیے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فلسطینیوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی امدادی ادارے اور اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے محصور علاقے میں فاقہ کشی کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے سوشل میڈیا پر ایک بیا میں کہا ہے کہ غزہ میں ہر کوئی بھوکا ہے۔ خوراک دستیاب نہ ہونا ایک معمول بن چکا ہے اور ہر روز زندہ رہنے کی ایک جدوجہد جاری ہے۔
ادارے نے کہا کہ بالغ لوگ اس لیے کھانا نہیں کھاتے کہ بچے کھانا کھا سکیں۔ لوگ پورا پورا دن اور رات بھوک میں گزار رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غذائی عدم تحفظ کے شکار بچوں کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے جب کہ غزہ کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔
متعدی امراض
اقوامِ متحدہ کی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او نے متعدی بیماریوں کے پھیلنے کے فوری خطرے سے خبردار کیا۔
اکتوبر کے وسط سے سانس کے شدید انفیکشن کے لگ بھگ دو لاکھ کیسز، پانچ سال سے کم عمر افراد میں اسہال کے ڈیڑھ لاکھ کیسز، خارش کے ہہ ہزار کیسز اور یرقان کے پانچ ہزار کیسز سامنے آئے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔