امریکہ نے بوکو حرام کی طرف سے شمال مشرقی نائیجریا میں گزشتہ ہفتے کیے جانے والے حملوں کی مذمت کی ہے، ان حملوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اتوار کو بھی ایک چرچ پر ہونے والے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے نائیجیریا کے عوام کی طرف سے ’’انتہا پسندی کے خلاف کوششوں‘‘ کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔
کربی نے کہا کہ ’’ہم نائیجیریا کی طرف سے ان حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں نائیجیریا کے عوام کو تشدد اور دہشت (کے خوف) سے آزاد رہنے کا حق ہے‘‘۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یوب ریاست کے سب سے بڑے قصبے پوٹسکم میں ایک چرچ پر ہونے والے حملے میں ایک بمبار نے چرچ کے ایک رکن کے لبادے میں عمارت میں داخل ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہی بارودی مواد دھماکا کر دیا۔
یہ حملہ قریبی ریاست بورنو میں میدوگری کے قریب جمعہ کو ہونے والے حملے کے بعد ہوا جس کے بارے میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چھ خواتین نے دھماکے کیے جن سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
دوسری طرف حکام نے گزشتہ ہفتے کوکاوا میں بوکوحرام کے مشبہ حملے میں تباہ ہونے والے مکانوں سے مزید لاشوں کو نکالا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کوکاوا میں حملے کے دوران مسلح افراد نے مسجدوں میں داخل ہو کر ان افراد کو قتل کیا جو افطار کے لیے وہاں موجود تھے، اس کے بعد حملہ آوروں نے لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا اور خواتین کو اس وقت گولیاں کا نشانہ بنایا جب وہ کھانا تیار کر رہی تھیں۔
کوکاوا بورنو کی ریاست میں ہے اور یہ بوکوحرام کی طرف سے جاری شورش کا مرکز ہے۔ صدر محمدو بحاری کے 29 مئی کو اقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس ریاست میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
نائیجیریا کے نئے صدر محمدو بحاری نے بوکو حرام کو کچلنے کی کوششوں کے لیے گزشتہ ماہ فوجی کمانڈ کے مرکز کو میدوگری منتقل کیا تھا۔ نائیجریا اور چار دوسرے قریبی ممالک اس گروپ سے لڑنے کے لیے ایک علاقائی فوجی فورس تشکیل دے رہے ہیں۔
شدت پسند گروہ بوکو حرام کی طرف سے 2009ء میں بغاوت شروع کرنے کے بعد سے ان گنت دیہات، مارکیٹوں، بس اسٹیشنوں، سرکاری عمارتوں اور عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ اس شورش کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق نائیجیریا کے تقریباً 15 لاکھ شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔