صدر براک اوباما افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی مرحلہ وار وطن واپسی کے منصوبے کا اعلان بدھ کو کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اپنے متوقع اعلان میں امریکی صدر واپس بلائے جانے والے فوجیوں کی تعداد اور ان کے انخلاء کے عمل کی رفتار کی تفصیلات بیان کریں گے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات اور امریکی افواج کو ہونے والے جانی نقصانات کے باعث امریکہ میں اس مشن کی حمایت میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
مسٹر اوباما نے دسمبر 2009ء میں افغانستان کے بارے میں اپنی مجموعی حکمت عملی پیش کی تھی جس میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عمل جولائی 2011ء سے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اگرچے اس حکمت عملی کے نتیجے میں امریکی سیاسی و فوجی قیادت افغانستان کے اہم علاقوں میں طالبان کے خلاف کامیابیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی امریکی فوجیوں کو ہونے والے جانی نقصانات میں اضافہ بھی اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
ماضی کے صدور کی طرح امریکہ کی اس غیر مقبول جنگ میں بھی مسٹر اوباما کو کانگریس کی طرف سے لا تعداد تجاویز دی جا رہی ہیں۔
حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینیٹ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے چیئرمین جان کیری نے کہا ہے کہ سلامتی سے متعلق امریکہ کے حقیقی مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں، لیکن افغان جنگ کے لیے امریکی عسکری و اقتصادی عزائم ان مفادات سے نا تو مطابقت رکھتے ہیں اور نا ہی طویل عرصے تک جاری رکھے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اپوزیشن ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر لِنڈسے گراہم نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی موجودہ حکمت عملی کو امریکی فوجیوں کے لیے ”وطن واپسی کا ٹکٹ“ قرار دیا تھا۔
مزید برآں امریکہ کے نامزد وزیر دفاع لیون پنیٹا سمیت دوسرے سیاسی و عسکری عہدے داروں جلد اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال کر صدر اوباما کے متوقع فیصلوں پر عمل درآمد شروع کر دیں گے۔ ان عہدے داروں میں افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے نئے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن اور کابل کے لیے نئے سفیر رائن کروکر شامل ہیں۔