جنوبی ایشیا کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسے سیاسی عمل کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے جس کے ذریعے افغانستان میں پُر امن تصفیے کے لیے مذاکرات ہو سکیں۔ لیکن بعض دوسرے ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ متحارب دھڑوں کے درمیان مصالحت میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نائب خصوصی مندوب وکرم سنگھ نے کہا ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر افغان تنازعے کا کوئی سیاسی حل ممکن ہونا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافے سے سیاسی عمل کے لیے سازگار فضا تیار کرنے میں مدد ملی ہے۔’’ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم افق پر امن دیکھ سکتے ہیں اور طالبان، صدر کرزئی، پاکستان اور ہم مل بیٹھیں گے اور جلد ہی یہ مسئلہ حل کر لیں گے اور اگلے سال اسی وقت کامیابی کا جشن منا رہے ہوں گے؟ جی نہیں، ہمارے خیال میں یہ سب اتنا آسان نہیں ہو گا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں نے معلومات اکٹھی کرنے کی غرض سے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ کچھ ابتدائی بات چیت کی ہے۔ امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ کسی بھی تصفیے کے نتیجے میں طالبان کو تشدد ختم کرنا ہوگا باغیوں کو افغان آئین کو ماننے کا سمجھوتہ کرنا ہوگا اور عورتوں کے حقوق اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔
وکرم سنگھ کہتےہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں استحکام لانے کی مجموعی کوشش میں اب ایک انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔ ’’ہم یہ بتا رہے ہیں کہ ہم سیاسی عمل کے حامی ہیں۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ میں آپ سے کہہ سکتا کہ سیاسی عمل شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی ہم اس مرحلے تک نہیں پہنچے۔ ہاں ہم اس کے بہت نزدیک ہیں اور اس کے لیے بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔‘‘
اطلاعات کے مطابق امریکی عہدے داروں کا خیال ہے کہ گذشتہ مہینے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد مل سکتی ہے۔ حمش نکسسن یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں امن کے عمل کے امکانات کے بارے میں ایک ریسرچ پراجیکٹ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’امریکی پالیسی میں مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایسے عمل کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں جس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوں۔‘‘
سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی کے تجزیہ کار اینڈرو ایکسیم نےعراق اور افغانستان میں امریکی فوج میں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کے کمانڈروں کا خیال ہے کہ مستقبل ِ قریب میں طالبان کے ساتھ کسی امن سمجھوتے کا امکان نہیں ہے۔ ’’امریکی فوج اور نیٹو کی انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس یعنی ISAF کے خیال میں ایسا کوئی سمجھوتہ جس پر عمل درآمد کرایا جا سکے بہت دور کی بات ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی باغیوں سے لڑتے رہیں گے۔‘‘
صدر براک اوباما اور نیٹو نے افغانستان سے لڑاکا فوجوں کی واپسی اور سیکورٹی کی ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کرنے کے لیے 2014ء کی تاریخ مقرر کی ہے۔ اس سے پہلے طالبان سے مذاکرات کی کوششیں ناکام ہو گئیں جب یہ پتہ چلا کہ طالبان کا ایک مبینہ لیڈر جسے پاکستان سے کابل لے جایا گیا تھا دھوکے باز ثابت ہوا۔ افغانستان کے سابق وزیرِ داخلہ علی جلالی کہتے ہیں کہ ایسے طالبان لیڈروں کی شناخت کرنا مشکل ہے جو مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔ ’’کوئی نہیں جانتا کہ انچارج کون ہے کسے طالبان کے لیے بات چیت کرنے کا اختیار ہے؟‘‘۔
کارنیگی، Endowment for International Peace کے اشیلے ٹیلیس کہتے ہیں کہ باغیوں کو مذاکرات کی ترغیب صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب طاقت کے توازن میں کوئی بنیادی تبدیلی آجائے اور طالبان یہ محسوس کریں کہ موجودہ افغان حکومت کا تختہ الٹنے کا مقصد خطرے میں پڑ گیا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسے مذاکرات میں جن کے ذریعے امن قائم ہو جائے اور افغان تنازعہ طے ہو جائے پاکستان کو لازمی طور پر شامل ہونا چاہیئے جہاں بہت سے طالبان لیڈر چھپے ہوئے ہیں۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار، معید یوسف کہتے ہیں’’پاکستان کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ مجھے بار بار یہی پیغام سنائی دیتا ہے کہ مصالحت کا عمل شروع کرو۔ اگر آپ یہ کام ابھی شروع کر دیں گے تو ہم انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی بہترین پوزیشن میں ہیں۔ اگر آپ نے دیر کی، تو معاملات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔‘‘
امریکہ، پاکستان اور افغانستان نے مصالحت کے عمل پر تبادلۂ خیال کے لیے اعلیٰ سطح پر سہ فریقی مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔