امریکی سینیٹ کی خارجہ اُمور کی کمیٹی کے حکم پر آٹھ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لیے پاکستان کو دی جانے والی امداد اطلاعات کے مطابق روک دی گئی ہے۔
امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے جمعہ کو روزانہ کی نیوز بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کانگریس کے کچھ اراکین نے اس معاملے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ حکومت یہ سمجھتی ہے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی ایک درست ’پلیٹ فارم‘ ہے۔
ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو دی جانے والی 74 کروڑ ڈالر سے زائد کی فوجی امداد بھی فی الحال روک دی گئی ہے۔
کچھ اراکین کانگریس کا ماننا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اُس طرح شد و مد سے کارروائی نہیں کر رہا ہے، جیسا کہ اُسے کرنا چاہیئے۔ اس لیے اُن کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کی فروخت کے لیے امریکی امداد پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا کہ مالی معاملات کے طریقہ کار سے متعلق اُمور امریکہ اور پاکستان بات چیت کا موضوع رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ وہ اس بارے میں میڈیا میں سامنے آنے والی خبروں پر کوئی تو تبصرہ نہیں کریں گے البتہ اُن بقول یہ بات اہم ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی کانگریس کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔
’’پاکستان نے ایف سولہ طیاروں کو دہشت گردوں کے خلاف بڑے موثر طریقے استعمال کیا ہے، تیر بہدف جو بمباری ہے وہ پاکستانی ائیر فورس نے کی ہے اور اس کے بڑے اچھے نتائج نکلے ہیں۔ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ہم اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچائیں تو امریکی کانگریس کو پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کرنا ہوگا اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور پاکستان کو ایف سولہ طیارے فراہم کرنے ہوں گے۔‘‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ایف سولہ طیاروں کی پاکستان کو فراہمی خود امریکہ کی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ اُنھوں نے کہا پاکستان کو اس معاملے کو سفارت کاری سے حل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔
’’پاکستان کی وزارت خارجہ یقیناً اس معاملے پر رابطے میں ہے اور میں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی کا بیان دیکھا ہے جنہوں نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔‘‘
ان آٹھ ایف سولہ طیاروں کی کل 70 کروڑ ڈالر مالیت میں سے امریکی حکومت نے 43 کروڑ ڈالر بطور امداد فراہم کرنے تھے جب کہ بقیہ 27 کروڑ ڈالر پاکستان نے دینے تھے۔
لیکن ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے لیے امداد روکنے کے بعد اب اگر پاکستان یہ طیارے خریدے گا تو اُسے تمام 70 کروڑ ڈالر دینے ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ کی طرف سے پاکستان کو ایف-16 جنگی طیاروں کی مجوزہ فروخت روکنے سے متعلق قراردار کو کانگریس نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد پاکستان کو ان طیاروں کی فروخت کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں بہتری دیکھی گئی اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی وفود نے بھی ایک دوسرے کے ملکوں دورے کیے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات بھی جاری ہیں۔
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ ’ایف سولہ‘ طیارے دہشت گردی کے خلاف اندرون ملک جاری جنگ میں معاون ثابت ہوں گے اور ان سے پہاڑی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو درست نشانہ بنانے میں مدد ملے گی۔
جب اس بارے میں ترجمان ٹونر سے پوچھا گیا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی اہم ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہم بھی سمجھتے ہیں کہ ایف سولہ طیارے (پاکستان) کے لیے مدد گار ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان اُن دہشت گردوں کے خلاف کوششیں کر رہا ہے جو تمام پاکستانیوں کے لیے خطرہ ہیں۔