رسائی کے لنکس

مجوزہ بِل پر سعودی عرب برہم، قانون سازی کی بڑھتی ہوئی حمایت


سینیٹر جان کورنائن
سینیٹر جان کورنائن

’جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹررزم ایکٹ‘ کے منظور ہونے کی صورت میں، 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے لیے القاعدہ کی مدد کرنے والی غیر ملکی حکومتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی دائر کرنے کا عمل آسان ہوجائے گا

امریکی صدر براک اوباما کے دورہٴ سعودی عرب سے ایک ہی روز قبل، دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹروں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اُس قانون سازی کی مختلف سطح پر حمایت کریں گے، جس پر سعودی عرب برہم ہے جب کہ اِس پر وائٹ ہاؤس نے نکتہ چینی کی ہے۔

’جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹررزم ایکٹ‘ کے منظور ہونے کی صورت میں، 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے لیے القاعدہ کی مدد کرنے والی غیر ملکی حکومتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی دائر کرنے کا عمل آسان ہوجائے گا۔ حالانکہ مجوزہ بِل میں کسی ایک ملک کا نام نہیں لیا گیا۔ تاہم، اسے کسی بھی دہشت گرد گروپ پر لاگو کیا جاسکتا ہے، جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اِس میں سعودی عرب کو ہدف بنایا گیا ہے، چونکہ 11 ستمبر کے منصوبہ سازوں میں سے متعدد کا تعلق اِسی ملک سے تھا۔

ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے، ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹر، جان کورنائن، نے نیو یارک کے ڈیموکریٹ سینیٹر، چَک شومر کے ساتھ مل کر بِل کا مسودہ تحریر کیا ہے۔

کورنائن نے منگل کے روز سینیٹ کے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں امید کرتا ہوں کہ یہ قانون سازی اُن غیر ملکی حکومتوں کو مؤثر طور پر خبردار کرے گی جو ہمارے ملک کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے اُنھیں رقوم فراہم کرتے ہیں، اب وہ ایسا کرنے سے پہلے دو بار سوچنے پر مجبور ہوں گی‘‘۔

وائٹ ہاؤس نے غیر ارادی نتائج کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بِل سے بین الاقوامی قانونی ضابطہ کار کو دھچکا پہنچے گا، جس نے عالمی سطح پر امریکہ کو فائندہ پہنچایا ہے۔

وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ کے الفاظ میں، ’’اِس سے اقتدار ِاعلیٰ کی حامل استثنیٰ کے سارے نظرئے کو خطرہ لاحق ہے۔ اور، یہ ایسا معاملہ ہے جس سے کسی اور ملک کی بنسبت، امریکہ کو زیادہ اہم نتائج کا سامنا ہوگا‘‘۔

سعودی عرب ایک مدت سے اس بات کی تردید کرتا آہا ہے کہ اُس کا 11 ستمبر کے حملوں میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں رہا۔

’دِی نیو یارک ٹائمز‘ نے سعودی عرب کے حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ کارنائن-شومر بِل کو قانونی شکل ملنے کی صورت میں، وہ سینکڑوں ارب ڈالر کے امریکی اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہوگا۔

اِس سال کے اوائل میں، ایوان کی کمیٹی نے یہ قانون سازی منظور کی تھی، جسے کسی بھی لمحے سینیٹ کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔ اب تک صدر کے ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے انتہائی قریبی ساتھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ اِس بِل کی حمایت کرنے پر مائل ہیں۔

کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر، باربرا بوکسر کے الفاظ میں ’’میرا جھکاؤ اِس کے حق میں ہے۔ لیکن، میں پہلے 28 صفحات پڑھ لوں، پھر کوئی حتمی فیصلہ کروں گی‘‘۔

اِن 28 صفحات میں کانگریس کی رپورٹ کا ’کلاسی فائیڈ‘ حصہ شامل ہے۔ 11/9کے حملوں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سنہ 2001 میں امریکی سرزمین پر ہونے والے اِن ہلاکت خیز دہشت گرد حملے میں ملوث ہائی جیکروں اور سعودی عناصر کا آپس میں تعلق ہو سکتا ہے۔

بوکسر نے اِس بات کا عندیہ دیا کہ اُن پر اِس بات کا کوئی اثر نہیں کہ وائٹ ہاؤس اس بِل کی مخالفت کر رہا ہے۔

اُن کے بقول، ’’میں امریکہ کی صدر نہیں ہوں۔ میں سینیٹ کی رُکن ہوں اور میرا کام ملک کے عوام کے حقوق کی پاسدادری کو یقینی بنانا ہے‘۔

مؤقف میں غیر معمولی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے، اوباما کی خارجہ امور کی پالیسی کے ایک سخت مخالف نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی تشویش بجا ہے۔

ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹر، لِنڈسی گراہم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’گروپ جنھیں ہم دہشت گرد گرادانتے ہیں، دیگر ممالک اُنھیں اپنا اتحادی خیال کرتے ہیں‘‘۔

گراہم نے کہا کہ بِل میں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دہشت گرد کارروائی کی براہِ راست پشت پناہی، نا کہ دہشت گرد گروپ کی عمومی حمایت، امریکی عدالت میں دائر کردہ مقدمے کا عنوان بن سکتی ہے۔ اگر قانون سازی کی زبان قطعی نہیں ہوگی تو امریکہ کو میسر بین الاقوامی تحفظات کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG