رسائی کے لنکس

سعودی عرب: مذہبی ضوابط کی نگران فورس کے اختیارات محدود


مذہبی پولیس کا ایک اہلکار گلی میں گھڑا اذان دے رہا ہے۔ فائل فوٹو
مذہبی پولیس کا ایک اہلکار گلی میں گھڑا اذان دے رہا ہے۔ فائل فوٹو

نئے ضوابط کے مطابق صرف پولیس اور منشیات سے متعلق سکواڈ کے اہلکاروں کو کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

سعودی عرب نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ ملک میں مذہبی ضوابط اور قوانین کی نگران پولیس فورس کے لوگوں کو گرفتار کے اخیتارات ختم کر دیے گئے ہیں اور انہیں اب ’’حسن سلوک اور نرمی‘‘ سے اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا ہوگا۔

مُطَوعین کہلانے والی هيئہ فورس کے لیے نئے صوابط ملک کی کابینہ نے منظور کیے اور انہیں منگل کو شائع کیا گیا۔

نئے ضوابط کے مطابق صرف پولیس اور منشیات سے متعلق اسکواڈ کے اہلکاروں کو کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

نئے ضوابط کے مطابق ’’ھیئہ کے سربراہ اور اہلکار نہ تو لوگوں کو روکیں گے، انہیں گرفتار کریں گے یا ان کا پیچھا کریں گے اور نہ ہی ان کے شناختی کارڈ طلب کریں گے۔ یہ پولیس اور منشیات سے متعلق یونٹ کا دائرہ اختیار ہے۔‘‘

اس فورس کے اہلکار ملک میں اسلام کی سخت تشریح کا نفاذ کرتے ہیں جس میں عوامی مقامات میں عورتوں کے مکمل برقعے میں ملبوس ہونے کو یقینی بنانا، غیر متعلق مردوں اور عورتوں کے میل جول کو روکنا اور نماز کے اوقات میں دکانوں کو بند کرانا شامل ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق فروری میں ریاض میں ایک شاپنگ مال کے باہر ایک نوجوان عورت پر حملہ کرنے کے الزام میں مطوعین کے اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد اس فورس کی سخت نگرانی کی جا رہی تھی۔

2013 میں ایک اور واقعے میں مذہبی پولیس کے دو اہلکاروں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ایک گاڑی کا پیچھا کرنے کے دوران ان کی کار اس سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔

2013 میں اس متنازع فورس کو پوچھ گچھ کرنے اور فرد جرم عائد کرنے سے روک دیا گیا تھا مگر اطلاعات کے مطابق ان کی طرف سے زیاتیاں پھر بھی جاری رہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ تبدیلی ضرور آئے گی کیونکہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔

مکہ میں مذہبی پولیس کے سابق سربراہ شیخ احمد الغامدی کا خیال ہے کہ یہ اچھی تبدیلی ہے مگر انہوں نے مزید کہا کہ اسے جلدی آنا چاہیئے تھا۔

مطوعین کی جانب سے فوری کوئی بیان نہیں جاری کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG