رسائی کے لنکس

امریکی عدالت نے ٹک ٹاک پر پابندی مؤخر کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے مقبول سوشل میڈیا ایپ 'ٹک ٹاک' پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندی کو مؤخر کر دیا ہے۔

اتوار کو رات بارہ بجے سے امریکہ میں اسمارٹ فون ایپ اسٹورز پر 'ٹک ٹاک' ڈاؤن لوڈ کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

تاہم اس سے قبل ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے ڈسٹرکٹ جج کارل نکولس نے اتوار کو فریقین وکلا کے دلائل سننے کے بعد ٹک ٹاک پر پابندی کو ملتوی کر دیا اور اس کی وجوہات بتائے بغیر عدالتی کارروائی کو سیل کر دیا۔

نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے ایک ہفتے بعد ٹرمپ انتظامیہ ایپ پر مکمل پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔ تاہم وفاقی جج نومبر میں شیڈول پابندی کو مؤخر کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔

سماعت کے دوران 'ٹک ٹاک' کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیاں امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے خلاف ہیں اور اس سے کمپنی کے کاروبار کو بھی شدید نقصان ہو سکتا ہے۔

رواں برس کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے 'ٹک ٹاک' کو امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ چین کی یہ ایپ امریکہ میں اپنے کاروبار کو امریکی کمپنیوں کو فروخت کر دے بصورتِ دیگر اس کے امریکہ میں آپریشنز بند کر دیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ 'ٹک ٹاک' چینی کمپنی 'بائٹ ڈانس' کی ملکیت ہے۔ پچھلے ہفتے امریکی اور چینی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بائٹ ڈانس نے امریکی کمپنیوں، اوریکل اور والمارٹ کے ساتھ پارٹنرشپ کا ہنگامی طور پر ایک معاہدہ کیا تھا۔

دوسری جانب 'ٹک ٹاک' انتظامیہ امریکہ میں ایپ کا کاروبار جاری رکھنے کے لیے عدالتی لڑائی بھی لڑ رہی ہے۔

وفاقی عدالت کے جج جسٹس نکولس نے اپنی رائے سربمہر رکھی ہے۔ اس سے پہلے امریکی حکومت کا عدالت میں جواب اور اتوار کی پوری کارروائی بھی سربمہر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔

ٹک ٹاک کے وکیل جان ہال نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'ٹک ٹاک' ایک ایپ ہی نہیں بلکہ یہ نئے زمانے کے ایک چوراہے کی طرح ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے پابندی کے احکامات پر رات گئے عمل درآمد ہو گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ایسے وقت میں ہو گا جب کہ ایک تقسیم شدہ انتخابی ماحول کے دوران خیالات کے آزادانہ اظہار کی اشد ضرورت ہے۔

امریکی محکمۂ انصاف کے وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ چینی کمپنی مکمل طور پر نجی کمپنی نہیں ہے اور اس پر چین کے ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جن کے تحت یہ چینی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کی پابند ہے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ اس قسم کے معاشی قوانین پر پہلی آئینی ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 'ٹک ٹاک' کے وکیل اس بات کا ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں کہ اس پابندی سے ان کی کمپنی کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔

اگست میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت اعلان کیا تھا کہ چینی ایپس، ٹک ٹاک اور وی چیٹ امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ دونوں ایپس اس لیے سیکیورٹی رسک ہیں کیوں کہ یہ امریکی صارفین کا نجی ڈیٹا چینی حکومت کے حوالے کر سکتی ہیں۔

'ٹک ٹاک' نے امریکہ میں اپنے آپریشنز پر مبنی ایک نئی کمپنی 'ٹک ٹاک گلوبل' بنائی ہے اور صدر ٹرمپ نے اس کمپنی کے 20 فی صد حصص کی ملکیت حاصل کرنے کے اوریکل اور والمارٹ کے ساتھ ہوئے والے ہنگامی معاہدے کی منظوری بھی دے دی ہے۔

تاہم صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ اگر اوریکل کو کمپنی پر مکمل کنٹرول نہ ہوا تو وہ یہ منظوری واپس لے لیں گے۔

XS
SM
MD
LG