پاکستانی حکومت نے اس امریکی بیان کو ”انتہائی غیر ذمہ دارانہ“ قرار دے کر مسترد کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ صحافی سلیم شہزاد کو بعض حکومتی عناصر کی اجازت سے قتل کیا گیا۔
ایک روز قبل واشنگٹن میں دیے گئے بیان میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی سراغ رساں ایجنسی آئی ایس آئی کے اس واقعہ سے تعلق کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ان کی نظر سے ایسی کوئی اطلاعات نہیں گزری ہیں جو سلیم شہزاد کے قتل میں حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کی نفی کرتی ہوں۔
اسلام آباد میں جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے امریکی فوجی کمانڈر کے بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور افسوس ناک قرار دیا۔”(ایڈمرل ملن کے) بیان سے پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات مزید مسائل اور مشکلات کا شکار ہوں گے۔ یقیناً اس سے ہماری جو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے مشترکہ کوششیں ہیں اْن کو دھچکا لگے گا۔“
اس سے قبل باضابطہ طور پر ایک تحریری بیان میں بھی حکومت کے ترجمان نے ایڈمرل ملن کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے بیانات سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کو متاثر کرنے کی کوششوں کے مترادف ہیں۔
ترجمان کے بقول ”حکومت نے اس سلسلے میں پہلے ہی ایک غیر جانبدار، آزاد اور خودمختار کمیشن تشکیل دے دیا ہے جس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ کمیشن کے سامنے لائے۔ اگر کسی نے ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کچھ کہنا ہے تو وہ اس کمیشن کے سامنے پیش ہو۔“
مزید برآں اپنے بیان میں سرکاری ترجمان نے کہا کہ ”لگتا ہے کہ کچھ طاقتیں اس معاملے کو پاکستان اور اس کی جمہوری حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ اس بارے میں افسوس کا اظہار کیے جانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔“
ہانگ کانگ میں قائم خبررساں ادارے ’ایشیا ٹائمز آن لائن‘ سے منسلک سلیم شہزاد 29 مئی کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لاپتا ہو گئے تھے اور دو روز بعد ایک نہر سے ان کی لاش برآمد ہوئی جس پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔
سلیم شہزاد کی لاش ملنے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ممکنہ طور پر اس واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑتی گئیں۔ لیکن آئی ایس آئی ان الزامات کو ”بے بنیاد“ قرار دے کر مسترد کرتی ہے۔
ہلاکت سے قبل سلیم شہزاد پاکستانی افواج اور عسکریت پسند اسلامی گروہوں کے مابین مبینہ روابط کی چھان بین کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی ایک خبر میں لکھا تھا کہ کراچی میں پاکستانی بحریہ کی ایک اہم تنصیب پر القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے اس وقت حملہ کیا جب اس عالمی دہشت گرد تنظیم سے روابط کے شبہ میں گرفتار بحریہ کے دو افسران کی رہائی سے متعلق بات چیت ناکام ہو گئی۔
مزید برآں ایڈمرل مائیک ملن نے تسلیم کیا کہ امریکہ کے پاکستان سے تعلقات ”شدید دباؤ“ کا شکار ہیں۔ ان کے بقول ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کا خفیہ آپریشن واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین پہلے ہی سے نازک تعلقات میں شدید تناؤ کا باعث بنا۔