|
امریکہ اسرائیل کی جانب سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اس کی زمینی کارروائیوں سے یہ ظاہر ہو کہ وہ شمالی غزہ میں" فاقہ کشی کی پالیسی"پر عمل نہیں کر رہا۔ یہ بات اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے بدھ کو سلامتی کونسل کو بتائی۔
لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے 15 رکنی کونسل کو بتایا کہ ایسی پالیسی "خوفناک اور ناقابل قبول ہوگی اور اس کے بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون کے تحت مضمرات ہوں گے۔"
تھامس گرین فیلڈ نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی کی جانب امریکی موقف میں شدت پر زور دیتے ہوئے کہا ،"اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ ان کی پالیسی نہیں ہے، خوراک اور دیگر دوسری ضروری رسد کو منقطع نہیں کیا جائے گا ، اور ہم اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کے زمینی اقدامات اس بیان سے ہم آہنگ ہوں ۔"
امریکی حکام نے منگل کو کہا تھاکہ امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی محصور علاقے میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اگلے 30 دنوں میں اقدامات کرے ورنہ امریکی فوجی امداد پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی امدادکی توسیع پر تبادلہ خیال کے لیے بدھ کو ایک ہنگامی اجلاس بلایا ۔ بحث میں شریک تین عہدیداروں نے کہا کہ امداد میں جلد ہی اضافے کا امکان ہے۔
تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ "خوراک اور دیگر رسد کو فوری طور پر غزہ میں پہنچایا جانا چاہیے۔ اورحفاظتی ٹیکوں اور انسانی امداد کی ترسیل اور تقسیم کے لیے غزہ میں انسانی بنیادوں پر وقفے ہونے چاہئیں ۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے جنوبی اسرائیل پر ایک مہلک حملے نے حماس کے زیر انتظام غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں محصور علاقے میں انسانی ہمدردی کا بحران پیدا ہو گیا ۔ حکام کا کہنا ہے کہ 42 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 2.3 23 لاکھ کی پوری آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے کونسل کو بتایا کہ غزہ کا مسئلہ امداد کی کمی کا نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران 10 لاکھ ٹن سے زیادہ امداد کی ترسیل کی گئی تھی۔ انہوں نے حماس پر انسانی ہمدردی کی امداد کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ "اسرائیل اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ کو بھاری مقدار میں امداد کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن جب تک حماس اقتدار میں رہے گا وہ ان تمام ضرورت مندوں تک کبھی نہیں پہنچ سکے گی۔" بقول انکے، حماس انسانی ہمدردی کی صورتحال کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
حماس نے بارہا اسرائیل کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ امداد میں ہیرا پھیری کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس قلت کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔
اقوام متحدہ نے طویل عرصے سے غزہ میں امداد پہنچانے اور اسے پورے جنگی علاقے میں تقسیم کرنے میں رکاوٹوں کی شکایت کی ہے۔ اس نے رکاوٹوں کا الزام اسرائیل اور لاقانونیت پر عائد کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ 2 اکتوبر سے 15 اکتوبر کے درمیان شمالی غزہ میں خوراک کی کوئی امداد نہیں پہنچی۔
امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام سربراہ جوائس ایمسویا نے کونسل کو بتایا کہ "شمالی غزہ میں نامساعد حالات اور ناقابل برداشت مصائب کے پیش نظر، یہ حقیقت کہ انسانی ہمدردی کی رسائی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، جو انتہائی خوفناک ہے "۔
بدھ کے روز، غزہ کے لیے امداد اور تجارتی ترسیل کی نگرانی کرنے والے اسرائیلی فوجی یونٹ نے کہا کہ اردن کے فراہم کردہ خوراک، پانی، طبی سامان اور پناہ گاہوں کے سامان سے لدے 50 ٹرک شمالی غزہ منتقل کیے گئےہیں۔
امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام سربراہ نے کہا کہ پورے غزہ میں پچھلے دو ہفتوں کے دوران اسرائیل کے ساتھ مربوط انسانی ہمدردی کے 286 مشنز میں سے ایک تہائی سے بھی کم کو بڑے واقعات یا تاخیر کے بغیر سہولت فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر کو انسانی ہمدردی کی ایک ٹیم اسرائیلی فورسز کی طرف سے 9 بار انکار یا رکاوٹ کا سامنا کرنے کے بعد شمالی غزہ کے دو اسپتالوں میں پہنچی۔ انہوں نے ایک درجن سے زیادہ شدید بیمار مریضوں کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال منتقل کیا۔
ایمسویا نے کہا، "یہ مشن شدید جنگ کے دوران مکمل ہوئے۔" انہوں نے مزید کہا کہ قافلے میں شامل ڈرائیوروں کو ایک اسرائیلی چیک پوائنٹ پر "سیکیورٹی اسکریننگ اور عارضی حراست کے دوران ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گیا"۔
انہوں نے کہا، "طبی عملے نےایک بچے کو سات گھنٹے سے زیادہ دیر تک ہاتھوں سے آکسیجن پمپ کر کے زندہ رکھا جب تک کہ وہ چیک پوائنٹ سے گزرے نہیں گئے۔"
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے حالیہ طبی مشن کو اسرائیل کی انسانی ہمدردی کی"جامع" کوششوں کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نےمزید کہا کہ "ہمیشہ کی طرح، ہم نے اپنی ذمہ داریوں سے بالاتر ہو کر بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کیا۔"
ڈینن نے پیر کو اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے پولیو کے قطرے پلانے کے دوسرے دور کے آغاز کے بارے میں بھی بات کی، جس میں علاقے میں لڑائی کے دوران مخصوص وقفوں میں 10 سال سے کم عمر کے 5 لاکھ 90 ہزار بچوں کو ویکسین دی گئی ۔
اقوام متحدہ میں الجزائر کے سفیر امر بینجامہ نے اسرائیل کی انسانی ہمدردی کی ان کوششوں پر سوال اٹھایا۔
انہوں نےکہا کہ "یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان بچوں کو ویکسین تو لگا سکیں لیکن انہیں کھانا نہ کھلا سکیں؟" ۔ انہوں نے کہا کہ یقینی نتیجہ یہ ہے کہ یہ فوجی کارروائی کے دوران عام شہریوں کو پہنچنے والا نقصان نہیں ہے، بلکہ فاقہ کشی کی دانستہ طور پر تیار کی گئی سوچی سمجھی اسرائیلی پالیسی ہے۔"
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم