|
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری لڑائی کے ایک سال بعد مشرق وسطی میں تنازعہ پھیلنے کے اندیشے ایک بھیانک حقیقت کا روپ دھارتے نظر آرہے ہیں جس میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں میں لبنان کی تباہی اور ایران کے ساتھ کسی براہ راست جنگ کے خطرات کو علاقائی اور عالمی امن کے خلاف بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے ۔
عرب ہمسایہ ملک اور امریکہ جنگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوششوں پر زور دے رہیں جبکہ اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں شدت آرہی ہے۔اسرائیل نے لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے رہنما نصراللہ کی ہلاکت کے بعد عسکریت پسند تنظیم کے کئی دوسرے اہم رہنماؤں اور ٹھکانوں کو ملک کے جنوب اور دارالحکومت بیروت میں زمینی اور فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان حملوں اور لڑائی کے بعد لبنان میں شہریوں کی ہلاکتوں، انفرا اسٹرکچر کے نقصان، متاثرہ لوگوں کے بے گھر ہونے اور آبادی کی منتقلی سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف مہم ملک کے اپنے دفاع کے حق کے مطابق ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق کے سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد سرحد پار سے حزب اللہ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے شمالی علاقوں سے منتقل ہونے والے 60 ہزار لوگوں کی ان کے گھروں میں واپسی اس کی ذمہ داری ہے۔
ادھر لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میقاتی نے خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کہا کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر مکمل عمل درآمد کے لیے تیار ہے جس کے ذریعہ اسرائیل اور حزب اللہ میں سال 2006 میں ہونے والی آخری بڑی جنگ کا اختتام عمل میں آیا تھا۔
عالمی ادارے کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت لبنانی حکومت حزب اللہ کی مسلح موجودگی کو اسرائیل کے ساتھ سرحد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر بہنے والے دریا لیتانی کے جنوب میں ختم کرنا تھا۔
اس کے بدلے میں معاہدے میں جنوبی لبنان سے مکمل اسرائیلی انخلاء شامل تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستے دریائے لیتانی کے جنوب میں واحد مسلح افواج ہوں گے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لبنان کی کمزور ریاست کی طرف سے حزب اللہ پر فوقیت حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت کی۔
ماضی کی لڑائیوں، عالمی تناظر، خطے کی صورت حال اور اسرائیل، ایران اور حزب اللہ کی جنگی صلاحیتوں میں اور موجودہ حالات میں فرق یا مماثلت پر روشنی ڈالنے کے لیے وائس آف امریکہ نے مشرق وسطی کے ماہرین سے بات کی۔
اسرائیل کی جنگی صلاحیت
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کو خطے کے کسی بھی ملک پر عسکری اور انٹیلیجنس آپریشن کرنے میں سبقت حاصل ہے ۔
اس سلسلے میں یونیورسٹی آف ڈیلاویر کے پروفیسر مقتدر خان اسرائیل کی بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے نوٹ کیا کہ اسرائیل نے حال ہی میں ایران کے اندر فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما اسمائیل ہنیہ کے خلاف کارروئی کی، پیجرز کے ذریعہ حزب اللہ کے کئی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ سمیت گروپ کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم پر کاری ضرب لگائی ہے۔
"موجودہ کارروائیوں سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل لبنان کو سزا دینا چاہتا ہے۔"
ایران میں مقیم تجربہ کار صحافی اور تجزیہ کار اے آر سید کہتے ہیں کہ اسرائیل کو امریکہ اور یورپ نے اربوں ڈالر کا جدید اسلحہ فراہم کیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "اسرائیل کی فضائی حملوں کی صلاحیت ہے لیکن حزب اللہ کے خلاف زمینی جنگ اتنی آسان نہیں۔"
حزب اللہ کا قیادت کا بحران
حزب اللہ کو اپنی تاریخ کا شدید ترین جھٹکا اس وقت لگا جب 27 ستمبر کے اسرائیلی حملے میں اس کے تین دہائیوں سے قیادت کرنے والے حسن نصراللہ میں ہلاک ہوگئے۔ تجزیہ کار ان کی ہلاکت کو تنظیم کے لیے بڑا نقصان قرار دیتے ہیں۔
تہران میں مقیم صحافی اے آر سید کہتے ہیں کہ "نصراللہ نے نہ صرف تنظیم کو منظم کیا اور اور ایران کی قدس بریگیڈ کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے ساتھ مل کر اس کو اسلحے سے لیس کیا بلکہ انہوں نے حزب اللہ کے لیے لبنان کے سیاسی منظر نامے پر اہم مقام بھی حاصل کیا۔"
ڈاکٹر مقتدر خان بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے کمان اور کنٹرول نظام کو کئی رہنماوں کو ہلاک کرکے اس تنظیم کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔
اس سوال پر کہ کیا حزب اللہ، جو سال 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، نئی قیادت کے ساتھ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اے آر سید کہتے ہیں کہ "ابھی تک تو تنظیم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہےاور اپنے وطن کا دفاع کرنے کا جذبہ بھی ہے۔"
ایرانی تجزیہ کار کے مطابق "وقت پڑنے پر تہران حزب اللہ کو مزید اسلحہ فراہم کرے گار اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔"
دوسری طرف پروفیسر خان کہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی اسلحے کے ذخیرہ کو انٹر سیپٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور حالات اتنے آسان نہیں لگتے۔
ایران کے عرب ممالک سے تعلقات اور امریکہ کا کردار
ماہرین کے مطابق ایران کی بین الاقوامی تنہائی میں کمی آئی ہے اور اب اس کے کئی عرب ملکوں اور امریکہ کے مدمقابل چین اور روس جیسی دوسری طاقتوں سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔
اے آر سید کے مطابق پچھلی لڑائیوں کے مقابلے میں ایران کے خطے کے ملکوں سے تعلقات بہت بہتر ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سفارتی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اس ہفتے ریاض کا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے سعودی عرب کی قیادت پر زور دیا کہ وہ جنگ کی صورت میں اسرائیل کا بالواسطہ یا کسی طریقے سے ساتھ نہ دیں۔
خبر رساں ادارے را ئٹرز کے مطابق تین خلیجی ریاستوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ایران کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے سے روکے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو تہران کے پراکسیوں کی طرف سے ان کی اپنی تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ ایران کے بیانات کے بعد عرب ریاست کراس فائر میں پھنسنے سے بچنے کے لیے اسرائیل کو ایران پر کسی بھی حملے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع نے ایران کے پچھلے ہفتے کے میزائل حملے کے جواب میں سخت جوابی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اے آر سید کے مطابق سعودی عرب کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ خطے میں کسی بڑی لڑائی سے اپنے ملک کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے جدید ترقی کے منصوبے بری طرح متاثر ہوں گے۔
اس صورت حال میں ماہرین کے مطابق ایران خطے میں اپنے مفادات کا تو کسی حد تک تحفظ کر سکتا ہے لیکن حزب اللہ کو بڑے پیمانے پر اسرائیلی کارروائیوں کا سامنا رہنے کا امکان ہے۔
ڈاکٹر خان اسرائیل کو "امریکہ کی پراکسی" قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ جنگ امریکہ اور ایران کی پراکسیز کی جنگ بن گئی ہے۔
"اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں ایران کا دفاعی بجٹ بہت کم ہے اور وہ اس سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔"
امریکہ کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتین یاہو، جن کے لیے جنگ سیاسی بقا کا مسئلہ ہے، امریکہ میں اہم سیاسی وقت پر الیکشن پر اثرانداز ہونے کی اس طرح کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیاں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن اسرائیل کا ساتھ دینے کا بھرپور اعادہ کر رہی ہیں۔
جہاں تک عرب ملکوں کا تعلق ہے تو پروفیسر خان کے مطابق ان میں "اتنی جرات اور سفارتی سمجھ بوجھ" نہیں ہے کہ وہ اپنی جانب سے جنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کوئی انیشی لے سکیں۔
فورم