افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کم ازکم 11 مبینہ شدت پسند ہلاک ہوگئے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق ہفتہ کو طلوع آفتاب سےقبل بغیر ہوا باز کے جاسوس طیارے سے دتہ خیل کے علاقے مداخیل میں مشتبہ شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر پر میزائل داغے گئے۔
مرنے والوں میں کالعدم تحریک طالبان کے پنجابی طالبان کہلوانے والے دھڑے کے لوگ بتائے جاتے ہیں جن میں دو اہم عسکریت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے اس قبائلی علاقے میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والی ہلاکتوں اور ان کی شناخت سے متعلق آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں 15 جون کو ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک ازبک جنگجوؤں سمیت 450 کے قریب شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جاچکا ہے۔
فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد یہ شمالی وزیرستان میں ڈرون کا چوتھا حملہ ہے۔ پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ ان ڈرون حملوں کا فوجی آپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔
ہفتہ کو دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس تازہ ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
امریکہ ڈرون کی کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے جب کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ حملے انسداد دہشت گردی میں اس کی کوششوں کے لیے مضر ہیں۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے تناظر میں شدت پسندوں کے کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے ملک میں گوکہ سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی تھی لیکن پھر بھی رواں ہفتے خصوصاً شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ میں تشدد کے مختلف واقعات دیکھنے میں آچکے ہیں۔
جمعہ کی شام ایک تازہ واقعے میں پشاور کے علاقے پشتہ خرہ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا۔
پولیس حکام کے مطابق یہ اہلکار روزہ افطار کرنے کے لیے بیٹھے تھے اور اس دوران انھوں نے اپنے ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹس اتار رکھی تھیں۔
اس سے قبل جمعہ کی صبح پشاور ہی میں گشت پر مامور پولیس کی ایک وین پر نامعلوم مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ایک اہلکار کو ہلاک کردیا تھا۔